Tuesday, June 25, 2013

Story of Dr. Zakir Naik

بسم اللہ الرحمن الرحیم

18 اکتوبر 1965کو پیدا ہونے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا تعلق بھارت کے معروف شہر ممبئی سے ہے۔ آپ مبلغ اسلام کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہ...
یں، کم ہی لوگوں کو معلوم ہو گا کہ
انہیں بھارت بھر کے با اثر مذہبی رہنماؤں میں تیسرے نمبر پر دیکھا جاتا ہے۔
تبلیغ اسلام کے لئے انگریزی زبان، سائنس اور تقابل ادیان کو ذریعہ بنانے والے ڈاکٹر نائیک پیشے کے لحاظ سے ہارٹ سرجن ہیں، ممبئی میں ڈاکٹر ذاکر نے پیس سیٹلائٹ ٹی وی قائم کرنے کے علاوہ، اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن، اسلامک انٹرنیشل اسکول بھی قائم کر رکھا ہے۔ ہارٹ اسپیشلسٹ سے مبلغ اسلام تک، ڈاکٹر ذاکر نا ئیک کا سفر خود ان کی اپنی زبانی قارئین کے لئے پیش خدمت ہے:

**************
اپنی زندگی کے ابتدائی عشرے میں جب مجھے ممبئی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں داخل کرایا گیا تھا تب سے ہی یہ بات میرے ذہن میں موجود تھی کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے، بہت بڑا ڈاکٹر! یہ میری والدہ ہی کی خواہش نہیں تھی بلکہ میرے والد بھی یہی چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں، دل کا ماہر ڈاکٹر جو لوگوں کی جان بھی بچائے اور والدین کی عزت بڑھانے کا سبب بھی بنے۔1996تک میں نے اپنے والدین کا خواب پورا کر دیا اور میں اچھا سرجن بن گیا مگر میرے دل میں عجیب سی ہلچل جاری تھی ۔

آخر ایک دن میں والدہ کے پاس بات کرنے بیٹھ ہی گیا۔ میں انہیں ممی کہا کرتا تھا۔ شدید محبت کے باعث میں یہ سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں، آخر میں نے کہہ ہی دیا کہ’’ ممی! آپ مجھے کس طرح کا انسان دیکھان چاہتی ہیں؟ ڈاکٹر کرشن چند کیلارم یا شیخ احمد دیدات؟‘‘ میرا سوال بڑا مشکل تھا، ممی کافی دیر تک خاموش رہیں۔
شیخ احمد دیدات کے بارے میں بتا تا چلوں کہ وہ عجیب انسان تھے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، میری زندگی کو پلٹنے میں ان کا بڑا کردار ہے، ان کا تعلق بھی بھارتی گجرات سے تھا اور وہ تاجر تھے، جنوبی افریقہ ہی میں انہوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کی اور داعی اسلام بن گئے، بھارت میں بھی وہ مقبول تھے خاص طور سے تعلیم یافتہ حلقے میں کیوں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کے لئے انگریزی زبان استعمال کر کے پورپ، امریکا سمیت دنیا بھر کی جدید تعلیم یافتہ طبقے میں جگہ بنا لی تھی، اپنی کرشماتی شخصیت اور تقابل ادیان میں مہارت کے ساتھ ساتھ ان کی دعوت میں ایسی کشش تھی کہ کوئی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔
اب میں کشن چند کیلارم کے بارے میں بھی بتا دوں، میں نے جس کالج میں پڑھا اس کا نام کشن چند کیلارم کالج ہے، کشن چند ہارٹ اسپیشلسٹ تھے اور ان کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، ماہر اور قابل ترین سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ وہ انسان دوست آدمی تھے اور اسی لئے انہوں نے کشن چند کیلارم کالج بھی قائم کیا تھا، میری والدہ سمیت بہت سے لوگ تھے جو انہیں رول ماڈل خیال کرتے ہوئے ان جیسا بننا چاہتے تھے، میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ کشن چند ہندو تھے تو لوگ ہندو بننا چاہتے تھے بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لو گ ڈاکٹر کشن چند کی طرح بڑا آدمی بننا چاہتے تھے۔ میری والدہ بھی مجھ سے یہی کہتی تھیں کہ میں بھی ڈاکٹر کشن چند کی طرح بڑا آدمی بنوں۔ اسی دوران ہم لوگ شیخ احمد دیدات سے بھی اچھی طرح واقف ہو گئے، ہمیں ان پر فخر تھا کہ ایک ایسا مسلمان بھی ہے جو اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو سائنس، تقابل ادیان اور جدید علوم کے ذریعے ایسا جواب دے دسکتا ہے جو ان کا معترضین کا منہ بند کر دے۔
جب میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا تو میرے دل میں یہ بات تھی کہ ڈاکٹر معاشرے کا اہم ترین فرد ہوتا ہے، اس لئے میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ سرجن، ہارٹ اسپیشلسٹ۔ اسی دوران میرے سامنے وہ دروازے وا ہونے شروع ہوئے جو اس دنیا سے آگے کے منظر دکھاتے ہیں، شیخ احمد دیدات کی باتوں نے میرے دل میں اسلام کی تبلیغ کا ایک شعلہ سا روشن کر دیا اور میں اسلام سے متعلق علوم کے حصول میں کافی وقت دینے لگا، اسی طرح چھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ یعنی 1991 سے1996آگیا۔ میں کامیا ب ڈاکٹر تھا اپنی فیلڈ میں آگے بڑھنے کے سارے راستے روشن تھے اور میرے تمام ساتھی و اساتذہ پریقین تھے کہ میں اپنی فیلڈ کے چند گنے چنے لوگوںمیں شمار کیا جاؤں گا مگر میں کچھ اور سوچ رہا تھا، میری سوچ کا محور اب یہ تھا کہ ڈاکٹر معاشرے کا سب سے بہترین فرد نہیں ہوتا، بلکہ اسلام کا داعی معاشرے کا سب سے بہترین فرد ہوتا ہے، جب یہ بات میرے دل میں راسخ ہو گئی تو میں نے اپنا پیشہ ترک کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ اب میں مزید ڈاکٹر نہیں رہنا چاہتا تھا،بلکہ داعی بننا چاہتا تھا، بالکل شیخ احمد دیدات کی طرح کا داعی۔
اسی سال میں نے اپنی والدہ سے بات کرنے کی فیصلہ کیا اور انکے سامنے یہ سوال رکھا کہ وہ مجھے ڈاکٹر کشن چند کیلارم کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہیں یا شیخ احمد دیدات کے روپ میں، ممی بہت دیر تک خاموش رہیں اور سوچتی رہیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں،ظاہر ہے کہ اس کے لئے فیصلہ کرنا کافی مشکل تھا، وہ بچپن سے مجھے بڑے ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں اور یہ ان کا خواب تھا جب کہ شیخ احمد دیدات بھی معمولی آدمی نہیں تھے اور پھر یہ عارضی دنیا ہی کا معاملہ نہیں تھا، قیامت ، آخرت، دین اورجنت کا معاملہ تھا اس لئے انہوں نے خوب اچھی طرح سوچ کر جواب دیا۔ میرے والدین مجھ سے کتنی محبت کرتے تھے اس کے بارے میں اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے، سبھی والدین اپنے بچوں سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں مگر میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں تا کہ اس محبت کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے۔
جب میں پہلی بار دین کے داعی کے طور پر بیرون ملک جا رہا تھا تو میرے والد نے کہا تھا’’ ذاکر! اگر تمھیں کوئی 10لاکھ روپے بھی تنخواہ دیتا اور یہ کہتا کہ بیرون ملک ملازمت کرنا پڑے گی تو میں کبھی بھی تمھیں اس کی اجازت نہیں دیتااور اپنے سے دور نہ ہونے دیتا مگر تم اسلام کی دعوت کے لئے جا رہے ہو اس لئے میں تمھیں اجازت دیتا ہوں‘‘۔
میری والدہ نے اس دن کافی سوچ و بچار کے بعد جواب دیا’’ ذاکر! تمہیں شیخ احمد دیدات تو بننا ہی پڑے گا کیوں کہ یہ دین اور آخرت کا معاملہ ہے، دنیا میں عارضی زندگی ہے نجانے کب اس کا اختتام ہو جائے مگر تمہیں ڈاکٹر کشن چند کیلارم بھی بننا پڑے گا ، ہارٹ اسپیشلسٹ‘‘ والدہ کا جواب مجھے بھی پسند آیا، ان کے حکم کی میں نے مکمل تعمیل کی اور اس دن کے بعد سے میں نے اپنے وقت کے دو حصے کر لئے، یا یوں کہہ لیجئے میں نے اپنے دن کو دو حصوں میں برابر تقسیم کر لیا، ایک حصہ شیخ احمد دیدات بننے کے لئے اسلامی علوم اور اسلام کی دعوت کے لئے مختص تھا اور ایک حصہ میں اپنی میڈیکل پریکٹس کرتا تھا، اس طرح میری پچاس فیصد صلاحیتیں داعی بننے کے لئے استعمال ہو رہی تھیں اور پچاس فیصد صلاحیتیں میڈیکل پریکٹس کے لئے تھیں۔ ایک سال اسی طرح گزرا، میں نے اس عرصے کے دوران دوبارہ اس موضوع پر اپنی والدہ سے کوئی بات نہیں کی مگر ٹھیک ایک سال بعد میں نے دوبارہ اپنی والدہ کے سامنے یہ سوال رکھا ’’ ممی! آپ مجھے ڈاکٹر کشن چند کیلارم بنانا چاہتی ہیں یا شیخ احمد دیدات؟‘‘ اس بار والدہ نے سوچنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایا، شاید انہیں اپنی ایک سال پہلے والی بات یاد آگئی، ان کی آنکھیں تھوڑی نم اور آواز گلوگیر ہوئی، وہ مضبوط لہجے میں بولیں’’ذاکر! اگر میرے پاس ایک ہزار کشن چند بھی ہوں تو میں ایک احمد دیدات کے حصول پر قربان کر دوں گی‘‘ اس دن میری روح سرشار ہو گئی اور میں نے اپنی والدہ کے حکم کے عین مطابق ڈاکٹر کشن چند کو شیخ احمد دیدات پر قربان کر دیا، بحیثیت ڈاکٹر یہ میرے پیشے کا آخری روز تھا، اس دن کے بعد سے میں مکمل داعی بن گیا، اسلام کی تبلیغ میری زندگی کا مقصد بن گئی اور میری تمام سوچیں اور صلاحیتیں اسی لئے وقف ہو گئیں۔ بہت سے لوگ کہہ سکتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ یہ میں نے کیا کیا؟ میں نے اپنا تابناک مستقبل خراب کر لیا؟ دین اور دنیا میں نفع و نقصان کے پیمانے الگ الگ ہیں لیکن میں علمی جواب دینے کے بجائے عام سا جواب دوں گا۔ فرض کریں کہ اگر میں نے کبھی کوئی خواب دیکھا بھی تھا وہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہی کہ میں دنیا میں مشہور ہو جاؤں، مقبول ہو جاؤں لوگ مجھے جانیں ۔ دیکھئے خواب دیکھنا یا دل میں کوئی تمنا پیدا ہونا انسانی بس میں نہیں ہے بلکہ یہ فطرت انسانی ہے کہ خود بخود کوئی بھی خواہش پیدا ہو سکتی ہے اب یہ پسندیدہ ہو یا نا پسندیدہ، یہ الگ بات ہے، میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگرکبھی میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی بھی ہوتی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتی؟ یہی کہ شہرت ملے۔ الحمدللہ ویسے بھی یہ سب کچھ تو اللہ نے مجھے دے ہی دیا ہے، اگر سچ بتاؤں تو کبھی میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میں 25لوگوں کے سامنے بھی بات کر سکوں گا، الحمد للہ اب ہزاروں لوگ میرے سامعین ہوتے ہیں، میں بڑائی نہیں کر رہا، میں تو صرف ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ میں نے ڈاکٹری کا پیشہ ترک کر کے اپنا مستقبل تاریک کر لیا، بھائی اللہ نے مجھے ضائع نہیں کیا، بلکہ اگر میں نامور ہارٹ اسپیشلسٹ بن جاتا تو کسی جگہ لوگوں کے آپریشن کر رہا ہوتا مگر اس طرح دنیامیں مجھے کوئی نہیں جانتا جس طرح آج بحیثیت داعی کے پہچانا جاتا ہوں، یہ بھی بتایا چلوں کہ میں نے سینٹ پیڑک ہائی اسکول ممبئی سے میڑک کرنے کے بعد کشن چند کیلارم کالج میں داخلہ لیا اور اس کے بعد ممبئی کے ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، اس کے بعد ممبئی یونیورسٹی سے بیچلر آف میڈیسن و بیچلر آف سرجری کی ڈگری حاصل کی۔
یہ تو ہوا میری زندگی کا ایک حصہ، جو میرے خاندان سے متعلق ہے کہ میں نے کہاں سے پڑھا اور کیسے ڈاکٹر بنا اور داعی تک کا سفر کیسے طے ہوا، میری زندگی کا دوسرا اہم حصہ میرے اور شیخ احمد دیدات کے تعلق پر مبنی ہے۔ یہ لوگوں کو حیرت زدہ کر دینے والی داستان ہے کہ شیخ احمد دیدات، جنوبی افریقہ میں متعصب اور جارحانہ انداز کی عیسائی مشنریز کے عین درمیان میں رہنے والا فرنیچر کا ایک ہندوستانی تاجر کس طرح سے اپنا دین بچانے کے ساتھ ساتھ مبلغ اسلام بن گیا۔ شیخ دیدات کے آخری سال اس طرح گزرے کہ پورا جسم فالج سے اثر سے مفلوج تھا صرف آنکھوں کی پلکوں کو ہلا سکتے تھے مگر اسی صورت میں مجھ سمیت تمام مبلغین کی سرپرستی کرتے اور باقاعدہ ہدایات جاری کرتے۔ ایک ایسا شخص جو فالج کے باعث بولنے سے قاصر ہو، ہل جل بھی نہیں سکتا ہو، صرف آنکھوں کی پلکوں کو حرکت دے سکتا ہو، آخر کس طرح ہدایات جاری کرسکتا ہے؟ یہ اللہ کی توفیق اور عزم و حوصلے کی حیرت انگیز ایمان افروز کہانی ہے۔

شیخ دیدات اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے، ان کے ایک طرف شیخ کا بڑا بیٹا اپنے ہاتھ میں مخصوص رجسٹر تھامے بیٹھا تھا بستر کے دوسرے طرف میں اور چند دوسرے ساتھی بیٹھے تھے، ہم نے شیخ کی گردن اور سر کے نیچے اونچے تکئے رکھ کر انہیں اتنا اونچا کر دیا تھا کہ وہ اپنے قدموں کے قریب رکھے ٹی وی کو دیکھ سکیں ، اس ٹی وی پر میری ایک تقریر جاری تھی، یہ تقریر اس موضوع پر تھی کہ اعلی اور جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقہ خاص طور سے نوجوان اپنی مسلم شناخت پر کیوں معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں اور یورپ و امریکہ میں جیسے ممالک میں کس طرح سے ان غیر مسلموں کے سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے جو ہر چیز سائنسی پہلو پر، پرکھنا چاہتے ہیں۔ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ شیخ دیدات اپنے آخری سالوںمیں فالج کے زیر اثر تھے اور آنکھوں کے سوا ان کا پورا جسم مفلوج تھا، اس صورت میں بھی وہ یہ چاہتے تھے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں انہیں اس کی مکمل خبر ہو، اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ میری تقاریر کی ویڈیو ان کے بستر کے سامنے ٹی وی پر لگا دی جاتی، سر اور گردن کے نیچے تکیئے رکھ کر اونچا کر دیا جاتا اس طرح وہ ٹی وی پر پروگرام دیکھتے رہتے اور ساتھ ساتھ ہدایات بھی جاری کرتے جاتے، یہ ایک ایسا حیرت انگیز منظر ہوتا تھا کہ نیا دیکھنے والا ایک لمحے کو ششدر رہ جاتا تھا،80سال کا ایک بوڑھا جو فالج کے باعث ہلنے جلنے اور بولنے تک سے قاصرتھا وہ شدید تکلیف برداشت کر کے اسلام کے مبلغین کو ہدایات جاری کر رہا ہے، اللہ اکبر، یہ سب اللہ کی توفیق اور مسلمانوں کی بھلائی کا جذبہ تھا۔
شیخ دیدات جنہیں میں چچا یا انگریزی میں انکل کہا کرتا تھا، انہوں نے انکھوں کے اشاروں سے گفتگو کرنے کی ایک نئی زبان اپنی بیماری کے باعث ایجاد کی تھی، گو کہ یہ ایک نہایت سست رفتار اور تھکا دینے والا عمل ہوتا تھا مگر ہر ایک پورے جوش و جذبے سے اس میں شریک رہتا، انکل دیدات فالج کے باعث بولنے سے قاصر تھے ان کے حلق سے جو آواز نکلتی تھی وہ ناقابل فہم غوں غاں کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا، وہ مجھے اور دیگر ساتھیوںکو اپنے قریب بٹھا لیتے اور ہم ٹی وی پر اپنے مناظرے یا تقاریر لگا دیتے، شیخ دیدات پروگرام دیکھتے جاتے اور جہاں کہیں انہیں کچھ کہنا ہوتا، تنقید کرنا ہوتی یا کوئی مشورہ دینا ہوتا وہ اپنے حلق سے کچھ آواز نکالتے اور ہم ٹی وی وہیں روک کر ان کی طرف متوجہ ہوجاتے، فالج کے باوجود انکل دیدات کا ذہن مکمل طور پر تندرست تھا، اب ان کے ذہن میں کیا ہے؟ یہ سمجھنے کے لئے ہم انگریزی حروف تہجی کو ان کے سامنے بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیتے، جن لفظ پر وہ آنکھ سے اشارہ کرتے ہم دوبارہ تصدیق کر کے اسے رجسٹر پر لکھ لیتے اس طرح کئی بار کی ریہر سل کے بعد ایک جملہ یا لفظ پورا ہوتا تو ہم اسے بلند آواز سے پڑھ کر شیخ سے تصدیق کرتے کہ کیا وہ یہی کہنا چاہتے ہیں، انکل دیدات اس کا جواب آنکھوں کی پتلیوں اور ابروں کو اثبات یا نفی میں ہلا کر دیتے۔ مثلا اگر انہیں گڈ کہنا ہوتا تو ہم اے بی سی پڑھنا شروع کر دیتے جب جی پر پہنچتے تو وہ آنکھ سے اشارہ کردیتے اور ہم دوسرے لفظ کی تلاش کا سفر شروع کر دیتے، جب انکل دیدات زیادہ خوش ہوتے تو وہ رونا شروع کر دیتے، ان کا رونا اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ وہ اللہ اکبر کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک نشست میں جب انکل نے دیکھا کہ ہمارے پروگرامز میں سامعین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اور ان میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ غیر مسلم پیچیدہ قسم کے سوالات بھی کرتے ہیں الحمدللہ کبھی آج تک ایسا نہیں ہوا کہ غیر مسلموں نے کوئی سوال اسلام سے متعلق کیا ہو اور انہیں تسلی بخش جواب نہ ملا ہو، یہ دیکھ کر شیخ نے کہا’’ ذاکر بیٹے! اللہ تمھیں کامیاب کرے، میں نے جو کچھ چالیس سال میں حاصل کیا تھا وہ تم نے صرف چار سال میں حاصل کر لیا ہے‘‘
حقیقت یہ ہے کہ شیخ دیدات نے اپنا سفر صفر سے شروع کیا تھا اور وہ چالیس سال تک ان تھک محنت اسلام کی تبلیغ کے لئے کرتے رہے، میں نے جب اپنا سفر شروع کیا تو اس چالیس سال کے بعد کا سفر شروع کیا اور شیخ دیدات کی چالیس سالہ محنت کا ثمر بھی میرے پاس چلا آیا، اس لئے یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ در اصل آج میں اسلام کے داعی کے طور پر جس مقام پر کھڑا ہوں یہ 44سالہ محنت کا نتیجہ ہے، چالیس سالہ محنت میرے انکل شیخ دیدات کی محنت اور چار سال میرے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ شیخ دیدات نے مجھے چالیس سالہ سفر چار سال میں طے کرادیا۔
بہت سے لوگوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ میں پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہوں تو وہ مجھے بحیثیت مبلغ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں، میں آپ کو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات بتاتا ہوں، میرے، استاد، محسن، چچا اور میری زندگی کو پلٹ دینے والی شخصیت، شیخ احمد دیدات نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ فرنیچر کی خرید و فروخت کرتے گزارا تھا،ان کے والد بھی تاجر تھے اور جنوبی افریقہ میں رہائش پذیر تھے، انکل دیدات بھارتی گجرات میں پیدا ہوئے اور نو سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کے پاس جنوبی افریقہ چلے گئے۔ یہ 1928 تھا اسی دوران شیخ دیدات کی والدہ انتقال کر گئیں۔ دیدات جنوبی افریقہ میں فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے، ان کا کام یہ تھا کہ گھوم پھر کر فرنیچر فروخت کریں۔ اسی دوران دیدات نے یہ دیکھا کہ عیسائی مشنریاں ہر طرف سرگرم ہیں اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں، جنوبی افریقہ میں اس وقت نسلی تفاوت اور افراتفری عروج پر تھی اور لوگوں کو پرسکون رکھنے کے لئے عیسائی مشنریوں کو استعمال کیا جاتا تھا، یہاں سے شیخ دیدات کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ اس سے قبل ان کے پاس جو معلومات تھیں وہ صرف اپنے فرنیچر سے متعلق تھیں، جو ان کے مسلمان مالک کا تھا اور یہ اسے فروخت کرنے کے لئے سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے۔
شیخ دیدات نے اپنے مطالعے کی ابتدا ہندوستان کے ایک عالم کی کتاب سے کیا، یہ کتاب مذاہب کے تقابل پر تھی۔ شیخ دیدات کو اس بات پر رنج تھا کہ امن کا مذہب اسلام ہے تو پھر لوگوں کو امن کی طرف لانے کے لئے اسلام کے بجائے عیسائی مشنریاں کس طرح کام کر رہی ہیں؟ وہ لوگوں کو درست راستے کی طرف لانا چاہتے تھے مگر ان کے پاس علم کی کمی تھی، اگر وہ عیسائی مبلغین سے کوئی مباحثہ کرتے تو شیخ دیدات کے پاس مشنریوں کے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا، دیدات نے بائبل خریدی اور اسے ازبر کر لیا، اسلام سے متعلق کتابوں کا معالعہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ زیر تریبت مشنریوں سے مباحثے شروع کر دیے اب دیدات کے پاس تمام سوالوں کا جواب تھا۔
اس جگہ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ شیخ دیدات اور میرے لیکچرز، کتب، مباحثے اور مناظرے انگریزی میں کیوں ہوتے ہیں، شیخ دیدات نے مجھے اس بارے میں بتایا تھا اور میں بھی اسی وجہ سے شیخ دیدات سے متاثر ہوا ، وجہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یورپ، امریکہ اور ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں زبان انگریزی ہے، یا پھر ایسا نوجوان طبقہ جو جدید علوم کا گرویدہ ہے اور اس کی زبان بھی انگریزی ہے یا وہ انگریزی کو ہی ترجیح دیتا ہے، ہمارا فوکس یہی طبقہ ہے اسی لئے تبلیغ اسلام کے لئے ہماری زبان بھی یہی ہے۔ دعوت کا میدان بہت وسیع ہے اور مختلف طبقوں کے لئے مختلف صلاحیتیوں والے داعیوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی پر فوقیت یا برتری حاصل ہے، نہیں! اسلام نے سب کو برابر رکھا ہے اور کسی کو کسی پر کوئی بھی فوقیت حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے۔ اب جب ہم اچھی انگریزی بولتے ہیں،جدید سائنس، میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر علوم کی تحقیق کو سامنے رکھ کر یہ بتاتے ہیں کہ یہ تمام باتیں تو قرآن اور اسلام صدیوں قبل ہی بتا چکے ہیں تو پھر کسی کو یہ شک نہیں رہتا کہ اسلام ہی خدا کی طرف سے انسانیت کے لئے بھیجا گیا مذہب ہے۔ بات کسی اور طرف نکل گئی ۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ شیخ دیدات نے انگریزی زبان کو اسی لئے تبلیغ کے منتخب کیا تھا کہ امریکہ، یورپ اور ایسے ہی دیگر ممالک میں موثر انداز میں اسلام کی تبلیغ کی جائے، اسلام کے معاملے میں معذرت خواہانہ اور نیم دلانہ رویہ نہ اختیا رکیا جائے، الحمدللہ ہمیں اس میں کامیابی ہوئی، اس بارے میں گواہی بھی جنوبی افریقہ میں مشنری رہنما ڈیوڈ ویسٹر لینڈ نے دی، اس کا کہنا تھا’’ شیخ دیدات وہ شخص تھا جس نے عیسائی غلبے والے ممالک میں عیسائی مشنریوں کو جارحانہ سے مدافعانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا اور انگریزی کو اسلام کی تبلیغ کے لئے استعمال کر کے جارحانہ پیش قدمی کی‘‘۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب لوگ شیخ دیدات اور میرا نام لیتے ہیں تو ایسے کئی اہم افراد گم نامی میں رہ جاتے ہیں جنہوں نے شیخ دیدات کا سفر شروع کرنے میں مدد دی تھی اور اس عمارت کے معماروں میں سے تھے۔اس سلسلے میں شیخ دیدات کے ذہن میں یہ آئیڈیا تھا کہ عیسائیت اور اسلام سے متعلق مباحث کرائے جائیں، ظاہر ہے کہ اس سے حق سامنے آجاتا، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اس سلسلے کا پہلا لیکچر ، مناظرہ یا مباحثہ1942 میں ڈربن کے ایک سینما میں ہوا۔ اس کا عنوان’’ محمد امن کے پیغامبر‘‘ تھا اور اس میں کل 15افراد نے شرکت کی تھی۔ یعنی1942میں جس بات کو سننے کے لئے صرف15افراد راضی تھے اب اس بات کو سننے کے لئے ہزاروں افراد بے تاب رہتے ہیں، اسی لئے شیخ دیدات نے اپنے آخری دنوں میں مجھے کہا تھا’’ ذاکر بیٹے! میں نے جو کچھ چالیس سال میں حاصل کیا تھا وہ تم نے صرف چار سال میں حاصل کر لیا‘‘۔ شیخ دیدات کے دو بہت ہی قریبی دوست تھے ان میں سے ایک غلام حسین وینکر تھے اور دوسرے کا نام طاہر رسول تھا،یہ وہ دو افراد ہیں جن کے بارے میں انکل دیدات کہا کرتے تھے کہ یہ میرے کیرئیر کے دو گمنام ہیرو ہیں۔ شیخ دیدات کی اکثر سرگرمیوں میں ان دونوں کا مشورہ شامل ہوتا تھا۔
1956میں شیخ دیدات نے اپنے انہی دونوں دوستوں کے ساتھ مل کر ڈربن میں ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا جو موثر انداز سے کتب شائع کرے اور کام کو منظم کرے، اسی سال اسلامک پروپیگیشن سینٹر انٹرنیشنل ڈربن میں قائم ہو گیا۔ اس ادارے نے درجنوں کتب اور لیکچرزکی کئی ملین کا پیاں چھاپ کر مفت تقسیم کیں، شیخ دیدات نے اس کے علاوہ جنوبی افریقہ میں ہی ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا۔ انہی کا ایک شاگرد میں بھی ہوں جس پر انہیں بہت فخر بھی تھا۔
8اگست2005 کو شیخ دیدات کا جنوبی افریقہ میں اپنے گھر میں ہی انتقال ہو گیا، سعودی علما اور حکمران شیخ دیدات کی تبلیغی سرگرمیوں کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ فالج ہونے کے بعد فوری طور پر انہیں خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب بلوایا گیا تاکہ ان کا علاج کیا جا سکے مگر خدا کو یہی منظور تھا کہ وہ باقی زندگی بستر پر گزاریں، شیخ نے واپس آنا پسند کیا اورا پنے گھر میں حیرت انگیز طریقے سے تبلیغی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے ایک دن خاموشی سے اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ میں نے شیخ کی زندگی میں ہی ان کے مشاورت کر لی تھی کہ میں ممبئی سے ایک سیٹلائٹ چینل ’’پیس ٹی وی ‘‘ کے نام سے شروع کرنا چاہتا ہوں اور ممبئی میں ہی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن و غیرہ بھی ان کے سامنے ہی کی بات ہے۔ یہ اسی دن کا ذکر ہے جس دن انکل دیدات نے مجھے کہا تھا کہ تم نے چالیس سال کا سفر چار سال میں طے کیا ہے، میں نے اسی دن ان سے کہا کہ میں مستقبل میں ایک ایسا چینل قائم کرنا چاہتا ہوں جو جدید طریقے سے اسلام کی تبلیغ کرے۔ شیخ دیدات اس پر بہت خوش ہوئے۔ شیخ دیدات کی وفات کے بعد احساس ہوا کہ انکل کی موجودگی کیا اہمیت رکھتی تھی، میں آج داعی ہوں تو اس کا سہرا شیخ دیدات کے سر ہے، مجھے داعی بنانے میں میرے والدین اور گھر والوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، انہی کی سپورٹ کی وجہ سے میں اپنی پوری توانائی دین کی دعوت پر صرف کرتا ہوں۔ اللہ میرا انجام بھی ایسا ہی کرے کہ میں دین کی دعوت دیتا ہوا رب کے پاس حاضری کے لئے رخصت ہوں۔ آمین۔
یہ تھی میری زندگی کی کہانی
والسلام
آپ کا بھائی
ڈاکٹر ذاکر احمد نائیک (ممبئی)
 

 

Enhanced by Zemanta

No comments:

Post a Comment