Sunday, June 30, 2013

Hadith : When some one Sneez

Narrated Abu Huraira R.A: The Prophet ﷺ said, " If anyone of you sneezes, he should say 'Al-Hamdulillah' (Praise be to Allah), and his (Muslim) brother or companion should say to him, 'Yar-hamuka-l-lah' (May Allah bestow his Mercy on you). When the latter says 'Yar-hamuka-llah", the former should say, 'Yahdikumul-lah wa Yuslih balakum' (May Allah give you guidance and improve your condition)."

[Sahih Bukhari :: Volume 8 :: Book 73 :: Number 243]

JazakumAllah Khair
Enhanced by Zemanta

Tuesday, June 25, 2013

The Sunnah way of Drinking water

English: Omani drinking water Français : Eau m...
 
The Sunnah way of Drinking water
1) Drink Water With Right Hand.
2) Drink Water By Sitting.
3) Start Drinking Water With Saying “Bismillah”.
4) See The Water Before Drinking.
... 5) Drinking Water In 3 Steps.
6) After Finishing Saying “Alhamdullilah”

Surely, ALLAH Will Give The Reward For Spreading Righteousness.
Enhanced by Zemanta

Story of Dr. Zakir Naik

بسم اللہ الرحمن الرحیم

18 اکتوبر 1965کو پیدا ہونے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا تعلق بھارت کے معروف شہر ممبئی سے ہے۔ آپ مبلغ اسلام کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہ...
یں، کم ہی لوگوں کو معلوم ہو گا کہ
انہیں بھارت بھر کے با اثر مذہبی رہنماؤں میں تیسرے نمبر پر دیکھا جاتا ہے۔
تبلیغ اسلام کے لئے انگریزی زبان، سائنس اور تقابل ادیان کو ذریعہ بنانے والے ڈاکٹر نائیک پیشے کے لحاظ سے ہارٹ سرجن ہیں، ممبئی میں ڈاکٹر ذاکر نے پیس سیٹلائٹ ٹی وی قائم کرنے کے علاوہ، اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن، اسلامک انٹرنیشل اسکول بھی قائم کر رکھا ہے۔ ہارٹ اسپیشلسٹ سے مبلغ اسلام تک، ڈاکٹر ذاکر نا ئیک کا سفر خود ان کی اپنی زبانی قارئین کے لئے پیش خدمت ہے:

**************
اپنی زندگی کے ابتدائی عشرے میں جب مجھے ممبئی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں داخل کرایا گیا تھا تب سے ہی یہ بات میرے ذہن میں موجود تھی کہ مجھے ڈاکٹر بننا ہے، بہت بڑا ڈاکٹر! یہ میری والدہ ہی کی خواہش نہیں تھی بلکہ میرے والد بھی یہی چاہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں، دل کا ماہر ڈاکٹر جو لوگوں کی جان بھی بچائے اور والدین کی عزت بڑھانے کا سبب بھی بنے۔1996تک میں نے اپنے والدین کا خواب پورا کر دیا اور میں اچھا سرجن بن گیا مگر میرے دل میں عجیب سی ہلچل جاری تھی ۔

آخر ایک دن میں والدہ کے پاس بات کرنے بیٹھ ہی گیا۔ میں انہیں ممی کہا کرتا تھا۔ شدید محبت کے باعث میں یہ سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں، آخر میں نے کہہ ہی دیا کہ’’ ممی! آپ مجھے کس طرح کا انسان دیکھان چاہتی ہیں؟ ڈاکٹر کرشن چند کیلارم یا شیخ احمد دیدات؟‘‘ میرا سوال بڑا مشکل تھا، ممی کافی دیر تک خاموش رہیں۔
شیخ احمد دیدات کے بارے میں بتا تا چلوں کہ وہ عجیب انسان تھے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، میری زندگی کو پلٹنے میں ان کا بڑا کردار ہے، ان کا تعلق بھی بھارتی گجرات سے تھا اور وہ تاجر تھے، جنوبی افریقہ ہی میں انہوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کی اور داعی اسلام بن گئے، بھارت میں بھی وہ مقبول تھے خاص طور سے تعلیم یافتہ حلقے میں کیوں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کے لئے انگریزی زبان استعمال کر کے پورپ، امریکا سمیت دنیا بھر کی جدید تعلیم یافتہ طبقے میں جگہ بنا لی تھی، اپنی کرشماتی شخصیت اور تقابل ادیان میں مہارت کے ساتھ ساتھ ان کی دعوت میں ایسی کشش تھی کہ کوئی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔
اب میں کشن چند کیلارم کے بارے میں بھی بتا دوں، میں نے جس کالج میں پڑھا اس کا نام کشن چند کیلارم کالج ہے، کشن چند ہارٹ اسپیشلسٹ تھے اور ان کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، ماہر اور قابل ترین سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ وہ انسان دوست آدمی تھے اور اسی لئے انہوں نے کشن چند کیلارم کالج بھی قائم کیا تھا، میری والدہ سمیت بہت سے لوگ تھے جو انہیں رول ماڈل خیال کرتے ہوئے ان جیسا بننا چاہتے تھے، میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ کشن چند ہندو تھے تو لوگ ہندو بننا چاہتے تھے بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لو گ ڈاکٹر کشن چند کی طرح بڑا آدمی بننا چاہتے تھے۔ میری والدہ بھی مجھ سے یہی کہتی تھیں کہ میں بھی ڈاکٹر کشن چند کی طرح بڑا آدمی بنوں۔ اسی دوران ہم لوگ شیخ احمد دیدات سے بھی اچھی طرح واقف ہو گئے، ہمیں ان پر فخر تھا کہ ایک ایسا مسلمان بھی ہے جو اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو سائنس، تقابل ادیان اور جدید علوم کے ذریعے ایسا جواب دے دسکتا ہے جو ان کا معترضین کا منہ بند کر دے۔
جب میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا تو میرے دل میں یہ بات تھی کہ ڈاکٹر معاشرے کا اہم ترین فرد ہوتا ہے، اس لئے میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا، صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ سرجن، ہارٹ اسپیشلسٹ۔ اسی دوران میرے سامنے وہ دروازے وا ہونے شروع ہوئے جو اس دنیا سے آگے کے منظر دکھاتے ہیں، شیخ احمد دیدات کی باتوں نے میرے دل میں اسلام کی تبلیغ کا ایک شعلہ سا روشن کر دیا اور میں اسلام سے متعلق علوم کے حصول میں کافی وقت دینے لگا، اسی طرح چھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ یعنی 1991 سے1996آگیا۔ میں کامیا ب ڈاکٹر تھا اپنی فیلڈ میں آگے بڑھنے کے سارے راستے روشن تھے اور میرے تمام ساتھی و اساتذہ پریقین تھے کہ میں اپنی فیلڈ کے چند گنے چنے لوگوںمیں شمار کیا جاؤں گا مگر میں کچھ اور سوچ رہا تھا، میری سوچ کا محور اب یہ تھا کہ ڈاکٹر معاشرے کا سب سے بہترین فرد نہیں ہوتا، بلکہ اسلام کا داعی معاشرے کا سب سے بہترین فرد ہوتا ہے، جب یہ بات میرے دل میں راسخ ہو گئی تو میں نے اپنا پیشہ ترک کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ اب میں مزید ڈاکٹر نہیں رہنا چاہتا تھا،بلکہ داعی بننا چاہتا تھا، بالکل شیخ احمد دیدات کی طرح کا داعی۔
اسی سال میں نے اپنی والدہ سے بات کرنے کی فیصلہ کیا اور انکے سامنے یہ سوال رکھا کہ وہ مجھے ڈاکٹر کشن چند کیلارم کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہیں یا شیخ احمد دیدات کے روپ میں، ممی بہت دیر تک خاموش رہیں اور سوچتی رہیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں،ظاہر ہے کہ اس کے لئے فیصلہ کرنا کافی مشکل تھا، وہ بچپن سے مجھے بڑے ڈاکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں اور یہ ان کا خواب تھا جب کہ شیخ احمد دیدات بھی معمولی آدمی نہیں تھے اور پھر یہ عارضی دنیا ہی کا معاملہ نہیں تھا، قیامت ، آخرت، دین اورجنت کا معاملہ تھا اس لئے انہوں نے خوب اچھی طرح سوچ کر جواب دیا۔ میرے والدین مجھ سے کتنی محبت کرتے تھے اس کے بارے میں اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے، سبھی والدین اپنے بچوں سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں مگر میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں تا کہ اس محبت کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے۔
جب میں پہلی بار دین کے داعی کے طور پر بیرون ملک جا رہا تھا تو میرے والد نے کہا تھا’’ ذاکر! اگر تمھیں کوئی 10لاکھ روپے بھی تنخواہ دیتا اور یہ کہتا کہ بیرون ملک ملازمت کرنا پڑے گی تو میں کبھی بھی تمھیں اس کی اجازت نہیں دیتااور اپنے سے دور نہ ہونے دیتا مگر تم اسلام کی دعوت کے لئے جا رہے ہو اس لئے میں تمھیں اجازت دیتا ہوں‘‘۔
میری والدہ نے اس دن کافی سوچ و بچار کے بعد جواب دیا’’ ذاکر! تمہیں شیخ احمد دیدات تو بننا ہی پڑے گا کیوں کہ یہ دین اور آخرت کا معاملہ ہے، دنیا میں عارضی زندگی ہے نجانے کب اس کا اختتام ہو جائے مگر تمہیں ڈاکٹر کشن چند کیلارم بھی بننا پڑے گا ، ہارٹ اسپیشلسٹ‘‘ والدہ کا جواب مجھے بھی پسند آیا، ان کے حکم کی میں نے مکمل تعمیل کی اور اس دن کے بعد سے میں نے اپنے وقت کے دو حصے کر لئے، یا یوں کہہ لیجئے میں نے اپنے دن کو دو حصوں میں برابر تقسیم کر لیا، ایک حصہ شیخ احمد دیدات بننے کے لئے اسلامی علوم اور اسلام کی دعوت کے لئے مختص تھا اور ایک حصہ میں اپنی میڈیکل پریکٹس کرتا تھا، اس طرح میری پچاس فیصد صلاحیتیں داعی بننے کے لئے استعمال ہو رہی تھیں اور پچاس فیصد صلاحیتیں میڈیکل پریکٹس کے لئے تھیں۔ ایک سال اسی طرح گزرا، میں نے اس عرصے کے دوران دوبارہ اس موضوع پر اپنی والدہ سے کوئی بات نہیں کی مگر ٹھیک ایک سال بعد میں نے دوبارہ اپنی والدہ کے سامنے یہ سوال رکھا ’’ ممی! آپ مجھے ڈاکٹر کشن چند کیلارم بنانا چاہتی ہیں یا شیخ احمد دیدات؟‘‘ اس بار والدہ نے سوچنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایا، شاید انہیں اپنی ایک سال پہلے والی بات یاد آگئی، ان کی آنکھیں تھوڑی نم اور آواز گلوگیر ہوئی، وہ مضبوط لہجے میں بولیں’’ذاکر! اگر میرے پاس ایک ہزار کشن چند بھی ہوں تو میں ایک احمد دیدات کے حصول پر قربان کر دوں گی‘‘ اس دن میری روح سرشار ہو گئی اور میں نے اپنی والدہ کے حکم کے عین مطابق ڈاکٹر کشن چند کو شیخ احمد دیدات پر قربان کر دیا، بحیثیت ڈاکٹر یہ میرے پیشے کا آخری روز تھا، اس دن کے بعد سے میں مکمل داعی بن گیا، اسلام کی تبلیغ میری زندگی کا مقصد بن گئی اور میری تمام سوچیں اور صلاحیتیں اسی لئے وقف ہو گئیں۔ بہت سے لوگ کہہ سکتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ یہ میں نے کیا کیا؟ میں نے اپنا تابناک مستقبل خراب کر لیا؟ دین اور دنیا میں نفع و نقصان کے پیمانے الگ الگ ہیں لیکن میں علمی جواب دینے کے بجائے عام سا جواب دوں گا۔ فرض کریں کہ اگر میں نے کبھی کوئی خواب دیکھا بھی تھا وہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہی کہ میں دنیا میں مشہور ہو جاؤں، مقبول ہو جاؤں لوگ مجھے جانیں ۔ دیکھئے خواب دیکھنا یا دل میں کوئی تمنا پیدا ہونا انسانی بس میں نہیں ہے بلکہ یہ فطرت انسانی ہے کہ خود بخود کوئی بھی خواہش پیدا ہو سکتی ہے اب یہ پسندیدہ ہو یا نا پسندیدہ، یہ الگ بات ہے، میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگرکبھی میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوئی بھی ہوتی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتی؟ یہی کہ شہرت ملے۔ الحمدللہ ویسے بھی یہ سب کچھ تو اللہ نے مجھے دے ہی دیا ہے، اگر سچ بتاؤں تو کبھی میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میں 25لوگوں کے سامنے بھی بات کر سکوں گا، الحمد للہ اب ہزاروں لوگ میرے سامعین ہوتے ہیں، میں بڑائی نہیں کر رہا، میں تو صرف ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ میں نے ڈاکٹری کا پیشہ ترک کر کے اپنا مستقبل تاریک کر لیا، بھائی اللہ نے مجھے ضائع نہیں کیا، بلکہ اگر میں نامور ہارٹ اسپیشلسٹ بن جاتا تو کسی جگہ لوگوں کے آپریشن کر رہا ہوتا مگر اس طرح دنیامیں مجھے کوئی نہیں جانتا جس طرح آج بحیثیت داعی کے پہچانا جاتا ہوں، یہ بھی بتایا چلوں کہ میں نے سینٹ پیڑک ہائی اسکول ممبئی سے میڑک کرنے کے بعد کشن چند کیلارم کالج میں داخلہ لیا اور اس کے بعد ممبئی کے ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، اس کے بعد ممبئی یونیورسٹی سے بیچلر آف میڈیسن و بیچلر آف سرجری کی ڈگری حاصل کی۔
یہ تو ہوا میری زندگی کا ایک حصہ، جو میرے خاندان سے متعلق ہے کہ میں نے کہاں سے پڑھا اور کیسے ڈاکٹر بنا اور داعی تک کا سفر کیسے طے ہوا، میری زندگی کا دوسرا اہم حصہ میرے اور شیخ احمد دیدات کے تعلق پر مبنی ہے۔ یہ لوگوں کو حیرت زدہ کر دینے والی داستان ہے کہ شیخ احمد دیدات، جنوبی افریقہ میں متعصب اور جارحانہ انداز کی عیسائی مشنریز کے عین درمیان میں رہنے والا فرنیچر کا ایک ہندوستانی تاجر کس طرح سے اپنا دین بچانے کے ساتھ ساتھ مبلغ اسلام بن گیا۔ شیخ دیدات کے آخری سال اس طرح گزرے کہ پورا جسم فالج سے اثر سے مفلوج تھا صرف آنکھوں کی پلکوں کو ہلا سکتے تھے مگر اسی صورت میں مجھ سمیت تمام مبلغین کی سرپرستی کرتے اور باقاعدہ ہدایات جاری کرتے۔ ایک ایسا شخص جو فالج کے باعث بولنے سے قاصر ہو، ہل جل بھی نہیں سکتا ہو، صرف آنکھوں کی پلکوں کو حرکت دے سکتا ہو، آخر کس طرح ہدایات جاری کرسکتا ہے؟ یہ اللہ کی توفیق اور عزم و حوصلے کی حیرت انگیز ایمان افروز کہانی ہے۔

شیخ دیدات اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے، ان کے ایک طرف شیخ کا بڑا بیٹا اپنے ہاتھ میں مخصوص رجسٹر تھامے بیٹھا تھا بستر کے دوسرے طرف میں اور چند دوسرے ساتھی بیٹھے تھے، ہم نے شیخ کی گردن اور سر کے نیچے اونچے تکئے رکھ کر انہیں اتنا اونچا کر دیا تھا کہ وہ اپنے قدموں کے قریب رکھے ٹی وی کو دیکھ سکیں ، اس ٹی وی پر میری ایک تقریر جاری تھی، یہ تقریر اس موضوع پر تھی کہ اعلی اور جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقہ خاص طور سے نوجوان اپنی مسلم شناخت پر کیوں معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں اور یورپ و امریکہ میں جیسے ممالک میں کس طرح سے ان غیر مسلموں کے سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے جو ہر چیز سائنسی پہلو پر، پرکھنا چاہتے ہیں۔ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ شیخ دیدات اپنے آخری سالوںمیں فالج کے زیر اثر تھے اور آنکھوں کے سوا ان کا پورا جسم مفلوج تھا، اس صورت میں بھی وہ یہ چاہتے تھے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں انہیں اس کی مکمل خبر ہو، اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ میری تقاریر کی ویڈیو ان کے بستر کے سامنے ٹی وی پر لگا دی جاتی، سر اور گردن کے نیچے تکیئے رکھ کر اونچا کر دیا جاتا اس طرح وہ ٹی وی پر پروگرام دیکھتے رہتے اور ساتھ ساتھ ہدایات بھی جاری کرتے جاتے، یہ ایک ایسا حیرت انگیز منظر ہوتا تھا کہ نیا دیکھنے والا ایک لمحے کو ششدر رہ جاتا تھا،80سال کا ایک بوڑھا جو فالج کے باعث ہلنے جلنے اور بولنے تک سے قاصرتھا وہ شدید تکلیف برداشت کر کے اسلام کے مبلغین کو ہدایات جاری کر رہا ہے، اللہ اکبر، یہ سب اللہ کی توفیق اور مسلمانوں کی بھلائی کا جذبہ تھا۔
شیخ دیدات جنہیں میں چچا یا انگریزی میں انکل کہا کرتا تھا، انہوں نے انکھوں کے اشاروں سے گفتگو کرنے کی ایک نئی زبان اپنی بیماری کے باعث ایجاد کی تھی، گو کہ یہ ایک نہایت سست رفتار اور تھکا دینے والا عمل ہوتا تھا مگر ہر ایک پورے جوش و جذبے سے اس میں شریک رہتا، انکل دیدات فالج کے باعث بولنے سے قاصر تھے ان کے حلق سے جو آواز نکلتی تھی وہ ناقابل فہم غوں غاں کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا، وہ مجھے اور دیگر ساتھیوںکو اپنے قریب بٹھا لیتے اور ہم ٹی وی پر اپنے مناظرے یا تقاریر لگا دیتے، شیخ دیدات پروگرام دیکھتے جاتے اور جہاں کہیں انہیں کچھ کہنا ہوتا، تنقید کرنا ہوتی یا کوئی مشورہ دینا ہوتا وہ اپنے حلق سے کچھ آواز نکالتے اور ہم ٹی وی وہیں روک کر ان کی طرف متوجہ ہوجاتے، فالج کے باوجود انکل دیدات کا ذہن مکمل طور پر تندرست تھا، اب ان کے ذہن میں کیا ہے؟ یہ سمجھنے کے لئے ہم انگریزی حروف تہجی کو ان کے سامنے بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیتے، جن لفظ پر وہ آنکھ سے اشارہ کرتے ہم دوبارہ تصدیق کر کے اسے رجسٹر پر لکھ لیتے اس طرح کئی بار کی ریہر سل کے بعد ایک جملہ یا لفظ پورا ہوتا تو ہم اسے بلند آواز سے پڑھ کر شیخ سے تصدیق کرتے کہ کیا وہ یہی کہنا چاہتے ہیں، انکل دیدات اس کا جواب آنکھوں کی پتلیوں اور ابروں کو اثبات یا نفی میں ہلا کر دیتے۔ مثلا اگر انہیں گڈ کہنا ہوتا تو ہم اے بی سی پڑھنا شروع کر دیتے جب جی پر پہنچتے تو وہ آنکھ سے اشارہ کردیتے اور ہم دوسرے لفظ کی تلاش کا سفر شروع کر دیتے، جب انکل دیدات زیادہ خوش ہوتے تو وہ رونا شروع کر دیتے، ان کا رونا اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ وہ اللہ اکبر کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک نشست میں جب انکل نے دیکھا کہ ہمارے پروگرامز میں سامعین کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اور ان میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ غیر مسلم پیچیدہ قسم کے سوالات بھی کرتے ہیں الحمدللہ کبھی آج تک ایسا نہیں ہوا کہ غیر مسلموں نے کوئی سوال اسلام سے متعلق کیا ہو اور انہیں تسلی بخش جواب نہ ملا ہو، یہ دیکھ کر شیخ نے کہا’’ ذاکر بیٹے! اللہ تمھیں کامیاب کرے، میں نے جو کچھ چالیس سال میں حاصل کیا تھا وہ تم نے صرف چار سال میں حاصل کر لیا ہے‘‘
حقیقت یہ ہے کہ شیخ دیدات نے اپنا سفر صفر سے شروع کیا تھا اور وہ چالیس سال تک ان تھک محنت اسلام کی تبلیغ کے لئے کرتے رہے، میں نے جب اپنا سفر شروع کیا تو اس چالیس سال کے بعد کا سفر شروع کیا اور شیخ دیدات کی چالیس سالہ محنت کا ثمر بھی میرے پاس چلا آیا، اس لئے یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ در اصل آج میں اسلام کے داعی کے طور پر جس مقام پر کھڑا ہوں یہ 44سالہ محنت کا نتیجہ ہے، چالیس سالہ محنت میرے انکل شیخ دیدات کی محنت اور چار سال میرے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ شیخ دیدات نے مجھے چالیس سالہ سفر چار سال میں طے کرادیا۔
بہت سے لوگوں کو جب یہ پتہ چلتا ہے کہ میں پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر ہوں تو وہ مجھے بحیثیت مبلغ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں، میں آپ کو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات بتاتا ہوں، میرے، استاد، محسن، چچا اور میری زندگی کو پلٹ دینے والی شخصیت، شیخ احمد دیدات نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ فرنیچر کی خرید و فروخت کرتے گزارا تھا،ان کے والد بھی تاجر تھے اور جنوبی افریقہ میں رہائش پذیر تھے، انکل دیدات بھارتی گجرات میں پیدا ہوئے اور نو سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کے پاس جنوبی افریقہ چلے گئے۔ یہ 1928 تھا اسی دوران شیخ دیدات کی والدہ انتقال کر گئیں۔ دیدات جنوبی افریقہ میں فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے، ان کا کام یہ تھا کہ گھوم پھر کر فرنیچر فروخت کریں۔ اسی دوران دیدات نے یہ دیکھا کہ عیسائی مشنریاں ہر طرف سرگرم ہیں اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں، جنوبی افریقہ میں اس وقت نسلی تفاوت اور افراتفری عروج پر تھی اور لوگوں کو پرسکون رکھنے کے لئے عیسائی مشنریوں کو استعمال کیا جاتا تھا، یہاں سے شیخ دیدات کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ اس سے قبل ان کے پاس جو معلومات تھیں وہ صرف اپنے فرنیچر سے متعلق تھیں، جو ان کے مسلمان مالک کا تھا اور یہ اسے فروخت کرنے کے لئے سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے۔
شیخ دیدات نے اپنے مطالعے کی ابتدا ہندوستان کے ایک عالم کی کتاب سے کیا، یہ کتاب مذاہب کے تقابل پر تھی۔ شیخ دیدات کو اس بات پر رنج تھا کہ امن کا مذہب اسلام ہے تو پھر لوگوں کو امن کی طرف لانے کے لئے اسلام کے بجائے عیسائی مشنریاں کس طرح کام کر رہی ہیں؟ وہ لوگوں کو درست راستے کی طرف لانا چاہتے تھے مگر ان کے پاس علم کی کمی تھی، اگر وہ عیسائی مبلغین سے کوئی مباحثہ کرتے تو شیخ دیدات کے پاس مشنریوں کے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا، دیدات نے بائبل خریدی اور اسے ازبر کر لیا، اسلام سے متعلق کتابوں کا معالعہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ زیر تریبت مشنریوں سے مباحثے شروع کر دیے اب دیدات کے پاس تمام سوالوں کا جواب تھا۔
اس جگہ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ شیخ دیدات اور میرے لیکچرز، کتب، مباحثے اور مناظرے انگریزی میں کیوں ہوتے ہیں، شیخ دیدات نے مجھے اس بارے میں بتایا تھا اور میں بھی اسی وجہ سے شیخ دیدات سے متاثر ہوا ، وجہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یورپ، امریکہ اور ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں زبان انگریزی ہے، یا پھر ایسا نوجوان طبقہ جو جدید علوم کا گرویدہ ہے اور اس کی زبان بھی انگریزی ہے یا وہ انگریزی کو ہی ترجیح دیتا ہے، ہمارا فوکس یہی طبقہ ہے اسی لئے تبلیغ اسلام کے لئے ہماری زبان بھی یہی ہے۔ دعوت کا میدان بہت وسیع ہے اور مختلف طبقوں کے لئے مختلف صلاحیتیوں والے داعیوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ کسی کو کسی پر فوقیت یا برتری حاصل ہے، نہیں! اسلام نے سب کو برابر رکھا ہے اور کسی کو کسی پر کوئی بھی فوقیت حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے۔ اب جب ہم اچھی انگریزی بولتے ہیں،جدید سائنس، میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر علوم کی تحقیق کو سامنے رکھ کر یہ بتاتے ہیں کہ یہ تمام باتیں تو قرآن اور اسلام صدیوں قبل ہی بتا چکے ہیں تو پھر کسی کو یہ شک نہیں رہتا کہ اسلام ہی خدا کی طرف سے انسانیت کے لئے بھیجا گیا مذہب ہے۔ بات کسی اور طرف نکل گئی ۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ شیخ دیدات نے انگریزی زبان کو اسی لئے تبلیغ کے منتخب کیا تھا کہ امریکہ، یورپ اور ایسے ہی دیگر ممالک میں موثر انداز میں اسلام کی تبلیغ کی جائے، اسلام کے معاملے میں معذرت خواہانہ اور نیم دلانہ رویہ نہ اختیا رکیا جائے، الحمدللہ ہمیں اس میں کامیابی ہوئی، اس بارے میں گواہی بھی جنوبی افریقہ میں مشنری رہنما ڈیوڈ ویسٹر لینڈ نے دی، اس کا کہنا تھا’’ شیخ دیدات وہ شخص تھا جس نے عیسائی غلبے والے ممالک میں عیسائی مشنریوں کو جارحانہ سے مدافعانہ انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا اور انگریزی کو اسلام کی تبلیغ کے لئے استعمال کر کے جارحانہ پیش قدمی کی‘‘۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب لوگ شیخ دیدات اور میرا نام لیتے ہیں تو ایسے کئی اہم افراد گم نامی میں رہ جاتے ہیں جنہوں نے شیخ دیدات کا سفر شروع کرنے میں مدد دی تھی اور اس عمارت کے معماروں میں سے تھے۔اس سلسلے میں شیخ دیدات کے ذہن میں یہ آئیڈیا تھا کہ عیسائیت اور اسلام سے متعلق مباحث کرائے جائیں، ظاہر ہے کہ اس سے حق سامنے آجاتا، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اس سلسلے کا پہلا لیکچر ، مناظرہ یا مباحثہ1942 میں ڈربن کے ایک سینما میں ہوا۔ اس کا عنوان’’ محمد امن کے پیغامبر‘‘ تھا اور اس میں کل 15افراد نے شرکت کی تھی۔ یعنی1942میں جس بات کو سننے کے لئے صرف15افراد راضی تھے اب اس بات کو سننے کے لئے ہزاروں افراد بے تاب رہتے ہیں، اسی لئے شیخ دیدات نے اپنے آخری دنوں میں مجھے کہا تھا’’ ذاکر بیٹے! میں نے جو کچھ چالیس سال میں حاصل کیا تھا وہ تم نے صرف چار سال میں حاصل کر لیا‘‘۔ شیخ دیدات کے دو بہت ہی قریبی دوست تھے ان میں سے ایک غلام حسین وینکر تھے اور دوسرے کا نام طاہر رسول تھا،یہ وہ دو افراد ہیں جن کے بارے میں انکل دیدات کہا کرتے تھے کہ یہ میرے کیرئیر کے دو گمنام ہیرو ہیں۔ شیخ دیدات کی اکثر سرگرمیوں میں ان دونوں کا مشورہ شامل ہوتا تھا۔
1956میں شیخ دیدات نے اپنے انہی دونوں دوستوں کے ساتھ مل کر ڈربن میں ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا جو موثر انداز سے کتب شائع کرے اور کام کو منظم کرے، اسی سال اسلامک پروپیگیشن سینٹر انٹرنیشنل ڈربن میں قائم ہو گیا۔ اس ادارے نے درجنوں کتب اور لیکچرزکی کئی ملین کا پیاں چھاپ کر مفت تقسیم کیں، شیخ دیدات نے اس کے علاوہ جنوبی افریقہ میں ہی ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا۔ انہی کا ایک شاگرد میں بھی ہوں جس پر انہیں بہت فخر بھی تھا۔
8اگست2005 کو شیخ دیدات کا جنوبی افریقہ میں اپنے گھر میں ہی انتقال ہو گیا، سعودی علما اور حکمران شیخ دیدات کی تبلیغی سرگرمیوں کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ فالج ہونے کے بعد فوری طور پر انہیں خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب بلوایا گیا تاکہ ان کا علاج کیا جا سکے مگر خدا کو یہی منظور تھا کہ وہ باقی زندگی بستر پر گزاریں، شیخ نے واپس آنا پسند کیا اورا پنے گھر میں حیرت انگیز طریقے سے تبلیغی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے ایک دن خاموشی سے اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ میں نے شیخ کی زندگی میں ہی ان کے مشاورت کر لی تھی کہ میں ممبئی سے ایک سیٹلائٹ چینل ’’پیس ٹی وی ‘‘ کے نام سے شروع کرنا چاہتا ہوں اور ممبئی میں ہی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن و غیرہ بھی ان کے سامنے ہی کی بات ہے۔ یہ اسی دن کا ذکر ہے جس دن انکل دیدات نے مجھے کہا تھا کہ تم نے چالیس سال کا سفر چار سال میں طے کیا ہے، میں نے اسی دن ان سے کہا کہ میں مستقبل میں ایک ایسا چینل قائم کرنا چاہتا ہوں جو جدید طریقے سے اسلام کی تبلیغ کرے۔ شیخ دیدات اس پر بہت خوش ہوئے۔ شیخ دیدات کی وفات کے بعد احساس ہوا کہ انکل کی موجودگی کیا اہمیت رکھتی تھی، میں آج داعی ہوں تو اس کا سہرا شیخ دیدات کے سر ہے، مجھے داعی بنانے میں میرے والدین اور گھر والوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، انہی کی سپورٹ کی وجہ سے میں اپنی پوری توانائی دین کی دعوت پر صرف کرتا ہوں۔ اللہ میرا انجام بھی ایسا ہی کرے کہ میں دین کی دعوت دیتا ہوا رب کے پاس حاضری کے لئے رخصت ہوں۔ آمین۔
یہ تھی میری زندگی کی کہانی
والسلام
آپ کا بھائی
ڈاکٹر ذاکر احمد نائیک (ممبئی)
 

 

Enhanced by Zemanta

Sunday, June 23, 2013

Hadith : خطا کاروں میں بہتر وہ لوگ ہیں جو توبہ شعار ہیں۔

 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر ابنِ آدم خطا کار ہے، اور خطا کاروں میں بہتر وہ لوگ ہیں جو توبہ شعار ہیں۔‘‘(ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
’’ہر ابن آدم خطاکار ہے‘‘۔ یعنی انسان میں فطرتاً ایسی کمزوریاں موجود ہیں کہ اُس سے اللہ کی نافرمانی کا صدور ہوسکتا ہے، اور اگر اللہ کی خاص نگرانی شاملِ حال نہ ہو تو انسان کے دامن کا اس گندگی سے بالکل پاک رہنا سخت مشکل ہے۔ اس ارشاد سے دو باتوں کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ ایک تو یہ کوئی انسان اپنی حالت پر مطمئن اور اپنے احتساب سے غافل نہ ہو۔ اُسے یہ حقیقت بخوبی یاد رہے کہ اُس سے ہر آن غلطی ہوسکتی ہے، اور اگر وہ چوکنا اور ہوشیار نہ رہے تو نفس کی کمزوری اور شیطان کی وسوسہ اندازی سے اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوجانے کا ہر دم اندیشہ ہے۔ دوسری بات جو ذہن نشین کرانی ہے وہ یہ ہے کہ انسان سے اگر غلطی ہوجائے تو وہ اپنے آپ سے مایوس نہ ہوجائے اور اپنی اصلاح سے دل برداشتہ ہوکر جی چھوڑ نہ بیٹھے۔ اس ارشاد میں گناہ گاروں کے لیے تعلّی کا پیغام ہے، ان سے کہا جارہا ہے کہ اگر تم سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی تو تمہیں اپنے سے م...
ایوس نہ ہونا چاہیے، غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے اور انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ اس لیے اپنے آپ سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ غلطی کا تدارک کرو اور اپنی شخصیت اور اپنے مستقبل سے پوری طرح پُرامید رہو۔
’’خطاکاروں میں بہتر وہ لوگ ہیں جو توبہ شعار ہیں۔‘‘ یعنی انسان کا معیارِ مطلوب یہ نہیں ہے کہ اس سے گناہ سرزد ہی نہ ہو۔ انسان سے تو کوئی نہ کوئی لغزش ہو ہی جاتی ہے، بہترین اور معیاری انسان وہ ہے کہ جب بھی اس سے غلطی ہوجائے وہ فوراً اللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرے، ہر لغزش اُس کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہو، وہ اپنی کمزوریوں پر مطلع ہوکر اُن کے ازالہ کی طرف شدت سے متوجہ ہو، جب بھی اس کے ہاتھ سے اللہ کی رسّی چھوٹ جائے، وہ لپک کر پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اسے تھام لے، جب بھی اللہ کی ناخوشی کا کوئی کام اُس سے ہوجائے، وہ رو رو کر اور گڑگڑا کر اپنے آقا کو خوش کرنے اور پہلے سے زیادہ اس کی خوشنودی کے کاموں میں لگ جائے۔ بالفاظِ دیگر توبہ کرنا اس کی مستقل صفت ہو، ایسے ہی انسان اللہ کو محبوب ہیں اور ایسے ہی لوگ نوعِ انسانی کا بہترین عنصر ہیں!
بہترین انسان وہ ہیں جو اپنی کمزوریوں کی طرف سے بے فکر ہونے کے بجائے اُن سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ پاک کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں، اور جب بھی ان سے کوئی چھوٹی یا بڑی غلطی ہوجاتی ہے، وہ توبہ کے ذریعہ اُس کا تدارک کرکے اپنے مالک سے اپنے تعلق کو اور زیادہ استوار کرلیتے ہیں۔
  

 

Enhanced by Zemanta

’’مومن اپنے گناہوں کو…بلاریب و شک… ایسا محسوس کرتا ہے ‘ گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے

  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’مومن اپنے گناہوں کو…بلاریب و شک… ایسا محسوس کرتا ہے ‘ گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور اسے (ہردم) اس بات کا خوف ہے کہ کہیں پہاڑ اس پر ٹوٹ نہ پڑے اور حق فراموش و ناخدا ترس بندہ اپنے گناہوں کو بالکل ایسا محسوس کرتا ہے‘ گویا ایک مکھی تھی جو اس کی ناک پہ سے گزری تو اس نے اسے یوں کرکے ہٹادیا۔‘‘ اور ابوشہاب (راوی) نے ناک کے اوپر پانے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا۔
    ’’مومن اپنے گناہوں کو۔ بلا ریب و شک۔ ایسا محسوس کرتا ہے‘گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے‘ اور اسے (ہردم)اس بات کا خوف ہے کہ کہیں پہار اس پر ٹوٹ نہ پڑے…‘‘یعنی اللہ کی بندگی کا عزم راسخ رکھنے اور اس کی اطاعت کی راہ میں پہیم جدوجہد کرنے کے باوجود بندۂ مومن سے خواہشات نفس ‘ جذبات و ہیجانات اور تسویلات شیطانی کے زیر اثر وقتی طور پر جو کوتاہیوں اور نافرمانیاں ہوجاتی ہین‘ وہ انہیں درست و صواب نہیں سمجھتا‘ نہ تاویلات کے ذریعہ دوسروں کو اور خود اپنے آپ کو کسی فریب میں مبتلا کرنے کی کوشس کرتا ہے‘ اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ اسے اپنی کوتاہیاں محسوس نہ ہوتی ہوں‘ یا محسوس تو ہوتی ہوں مگر حقیر معلوم ہوتی ہوں۔ اس کے برعکس وہ اپنی ہر چھوٹی بڑی کوتاہی کو محسوس کرتا ہے اور شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ ہو اپنے معمولی گناہ کو بھی پہاڑ کی مانند خیال کرتا ہے اور اللہ کی گرفت اور دنیا و آخرت میں اپنا گناہ کی ہولناک پاداش کے خوف سے لرزنے لگتا ہے۔ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ ہر ایک ایسے خطرے میں پھنس گیا ہے جس سے بچ نکلنے کی اگر فورا کوشش نہ کی گئی تو وہ اسے ہلاکت سے دوچار کردے گا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور پہاڑ سخت زلزلے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے بس اُس پر گراہی چاہتا ہے‘ اور پہاڑ گرا اور وہ المناک موت و ہلاکت سے دوچار ہوا۔ یہ محسوس کرکے وہ کانپ اٹھتا ہے۔ اس پرخطر موقف سے بھاگ کھڑے ہونے کی جدوجہد کرتا ہے جس گندگی نے اس کے دامن کو الودہ کردیا تھا اُسے اپنے سے زائل کردینے کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے‘ اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کی زد میں محسوس کرکے اپنی کوتاہی پر نادم و مغموم ہوتا ہے اوراس عذاب سے بچنے کے لیے اُسی کا دامن پکڑتا ہے جس کے سوا انسان کے لیے کوئی پناہ نہیں اور جس کے سوا انسان کو اس کے گناہوں کی ہولناک پاداش سے کوئی بچانے والا نہیں۔ وہ اس کی نافرمانی سے تائب ہوتا ہے‘ الحاح و زاری کے ساتھ اپنے اُس مہربان آقا کے آگے سربجودہوتا ہے ‘اُس کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پھر تھام لیتا ہے اور اُس کی نافرمانی سے بچنے اور اس کی رضا پر چلنے کا اس سے پھر محکم عہد کرتا ہے… یہ ہے حقیقی ایمان کا نتیجہ او ریہ ہے حقیقی مون کی علامت ! آیئے اس آئینہ میں ہم سب اپنا اپنا چہرہ دیکھیں کہ ہم میں کس درجہ حقیقی ایمان ہے اور کہاں تک ہم میں یہ صفت موجود ہے اور کہاں تک موجود نہیں ہے!
    ’’اور حق فراموش و ناخدا ترس بندہ اپنے گناہوں کو بالکل ایسا محسوس کرتا ہے ‘ گویا ایک مکھی تھی جو اس کی ناک پر سے گزری تو اُس نے اُسے یوں کرکے ہٹادیا۔‘‘یعنی وہ اللہ کی نافرمانی کو بہت معمولی خیال کرتا ہے‘ وہ سمجھتا ہے کہ ان نافرمانیوں سے اُس پر کوئی خاص بات ہوئی ہی نہیں۔ جس طرح مکھیاں ادھر ادھر اڑا کرتی ہیں او رپھر انسان کے بدن پر بیٹھ جاتی ہیں اور اس سے انسان کسی ہلاکت سے دوچار نہیں ہوتا‘ اور نہ مکھی کو اڑانے کے لیے کسی فکر یا جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ خودبخود اڑ جاتی ہے یا ہاتھ کا معمولی سا اشارہ اسے اڑانے کے لیے کافی ہوتا ہے‘ بالخصوص جبکہ وہ ٹھیک سے بیٹھی بھی نہ ہو بلکہ اس نے انسان کی ناک کو بس ذرا سا چھولیا ہو۔ بالکل یہی حال ناخدا ترس بندے کی نظر میں اللہ کی نافرمانیوں کا ہوتا ہے‘ وہ نافرمانیوں پر نافرمانیاں کرتا ہے مگر یہ نافرمانیاں کبھی بھی اس کے لیے تشویش خاطر جکا موجب نہیں بنتیں وہ ہر نافرمانی کو حقیر خیال کرتا ہے اور رفتہ رفتہ گناہوں میں سر سے پیر تک ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ’’فاجر‘‘ ہوتا ہے‘ اسے نہ اس کا احساس ہوتا ہے کہ اللہ کے اس پر فی الواقع کتنے انعامات و احسانات ہیں اور ان کے سلسلے میں اس پر اللہ کے کتنے زیادہ حقوق عاید ہوتے ہیں اور انہ اس کے دل میں خوف خدا و آخرت زندہ وبیدار ہوتا ہے کہ اسے نافرمانی کی راہ پر آگے بڑھنے سے روک سکے اور شدید احتساب اور کثیر استغفار و توبہ کی طرف مائل کرسکے… دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی کو حقیر سمجھنے کا مرض ہم میں تو پرورش نہیں پر رہا ہے!
Enhanced by Zemanta

Friday, June 21, 2013

AlQuran : We Must Testify you



الم ۔أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ۔وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ۔ (العنکبوت: 1۔3)

”الف، ل، م۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا! حالانکہ ہم سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون“۔  

Enhanced by Zemanta

Tuesday, June 18, 2013

Reply to the Adhan

Abu Hurairah Radiyallahu 'anhu narrates:
 

We were with The Prophet (Sallallähu alaihi wa sallam) and Bilal called the Adhan.
When he finished, The Prophet (Sallallähu alaihi wa sallam) said: “Whoever says the same with complete belief and conviction, will enter into Paradise.” (M'ustadrak Hakim)

Note: From this narration, it appears that in reply to the Adhan, one should repeat the exact words of the Muadhdhin. However, a narration of 'Umar Radiyallahu 'anhu clarifies that in reply to Hayya-'Alas-Salat, Hayya-'Alal-Falah one should say La haula wala quwwata illa billah (I have no strength to do good or protect myself from evil, except by the power of Allah). (Muslim)

Enhanced by Zemanta

Hadith : جبرائیل نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے


حضرت انس ابن_مالکؓ سے روایت ہے کہ رسالت مآب (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم) نے فرمایا، جب مجھے معراج کے لیئے لے جایا گیا تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے. میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے (غیبت کرتے تھے) اور انکی عزت سے کھیلتے تھے

[ ابو داؤد، کتاب:41 ، حدیث:4860 ]
...

Narrated Anas Ibn-e-Malikؓ that Prophet ﷺ said, When I was taken up to heaven I passed by people who had nails of copper and were scratching their faces and their breasts. I said: Who are these people, Gabriel? He replied: They are those who were given to back biting and who aspersed people's honor.

[ Dawud :: Book 41 : Hadith 4860 ]

Enhanced by Zemanta

27 Losses of Sins


غیـبت زنــا سے بهی بــدتــــر ہے

☼◙»غیـبت زنــا سے بهی بــدتــــر ہے«◙☼
کیــــوں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

...
"الغیبة اشد من الزنا".
>رواه الديلمی والبيہقی والطبرانی<

"غيبت زنا سے بهی بدتر ہے,"

اس کی کئ وجوه ہیں:

«۱»....
غیبت ظاہر تو ہوتی ہے زبان سے لیکن اس کی جڑ دل میں ہے,
اس لۓ کہ جو شخص غیبت کرتاہے اس کے دل میں کبر ہوتا ہے وه خود کو بڑا سمجهتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجهتا ہے اور کبر اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے،

اللہ تعالی فرماتے ہیں:

"وله الکبریاء فی السموات والارض"
(۳۷-۴۵)

"اور بڑائی تو صرف اسی کیلۓ ہے آسمانوں اور زمیں میں,"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لایدخل الجنة احد في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر"
(رواه مسلم)

"جنت میں کوئی ایسا شخص نہیں داخل ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر کبر ہو,"

غیبت کرنے والے کی نظر دوسروں کے عیوب پر ہوتی ہے اسے اپنے عیوب کی طرف توجہ ہی نہیں رہتی،
اس لۓ ان کی اصلاح کی فکر ہی نہیں رہتی،
جس کی اپنے عیوب پر نظر رہتی ہے اور ان کی اصلاح کی فکر رہتی ہے وه تو ہر وقت اسی فکر میں گهلتا رہتا ہے اور ڈوبا رہتا ہے کہ معلوم نہیں کل قیامت میں میرا کیا بنے گا؟میرا کیا حال ہوگا؟
اس کے دل میں دوسروں کا خیال تو آہی نہیں سکتا
ے

نہ تهی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکهتے لوگوں کے عیب و ہنر

پڑی اپنے گناہوں پر جو نظر
تو نگاه میں کوئی برا نہ رہا

«۲»....
غیبت کے زنا سے بدتر ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ زنا خفیہ گناه ہے اور غیبت سب کے سامنے علانیہ کی جاتی ہے، اور جو گناه علانیہ کیا جاۓ وه پوشیده گناه سے زیاده برا ہے,

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"کل امتی معافی الاالمجاهرین"
رواه البخاری و مسلم

"میری پوری امت لائق عفو ہے مگر علانیہ گناه کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جاۓ گا,,"

«۳»....زنا سے توبہ کی امید تو کی جاسکتی ہے، بالفرض توبہ کی توفیق نہ ہوئی تو کم سے کم اقراری مجرم تو ہے، خود کو گنہگار تو سمجهتا ہے
شاید اسی عجز و انکسار اور جرم کے اقرار سے اس کی مغفرت ہوجاۓ لیکن غیبت سے توبہ کی امید بہت کم ہے اس لۓ کہ غیبت کرنے والا خود کو گناه گار سمجهتا ہی نہیں،
بلکہ بہت نیک اور بڑا پاک دامن سمجهتا ہے,

زنا اور بدکاری کو ہر شخص برا سمجهتا ہے، اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے لۓ اس کا نام بهی سننا پسند نہیں کرتا
تو غیبت جو زنا سے بهی بدتر ہے اسے کیوں برا نہیں سمجهاجاتا اور اس سے بچنے کا کیوں ا تمام نہیں کیا جاتا؟؟؟؟؟؟
Enhanced by Zemanta

SUNNAHS OF EATING

1. To wash both the hands before and after meals. (Sunan Abi Dawud Hadtith3755)

2. To sit on the floor. (Sahih Bukhari Hadith5386)
...

3. To sit in one of the following three postures;

a) In the Tashahhud position (like in Salaat) (Fathul Baari Hadith5399),
b) Same as above with the right knee raised, (Ibid; Takhrijul Ihyaa Hadith1304) and
c) In the squatting posture (Sahih Muslim Hadith5299).

4. To eat with the fingers (thumb, index and middle fingers). (Sahih Muslim Hadith5265 and Majmauz-zawaaid)

5. To take the name of Allah before eating. (Sahih Bukhari Hadith5376)

بِسْمِ اللَّهِ وَعَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ

In the name of Allah and with the blessings of Allah I begin (eating)".


On forgetting to recite Bismillah at the beginning, recite:

بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ

"In the name of Allah in the beginning and end".

By not reciting Bismillah, Satan has an opportunity of partake in the food.

(Mishkat)


6. To eat with the right hand. (Sahih Bukhari Hadith5376)

Prophet (peace be upon him) said: “If one of you eats, he should eat with his right hand. And if he drinks something, he should drink with his right hand. For indeed, Satan eats and drinks with his left hand.” [Sahîh Muslim (2020)]

7. To eat from the closest part of the plate and not from the middle. (Sahih Bukhari Hadith5376)

8. As far as possible, to eat collectively from one plate. (Ibn Kathir Surah24 Aayat61; Sunan ibn Majah Hadith3287)

9. To clean every bit of food left on the plate and to lick the fingers before washing them. (Sahih Muslim Hadith5268)

Jabir reported that the Messenger of Allah (صلى الله عليه وسلم) commanded people to lick their fingers and the plate, saying, ‘You do not know where the blessing lies.’” [Muslim]

In one variant of it, “When one of you drops a morsel of food, he should pick it up, remove any dirt on it and then eat it, not leaving it for Shaytan. He should not wipe his hand with a cloth until he has licked his fingers. He does not know in which part of his food the blessing lies.”

In one variant of it, “Shaytan is present with each one of you in every thing you do, he is even present with you when you eat. So when you drop a morsel of food, you should remove any dirt on it and eat it and not leave it for Shaytan.”


10. Eating with three fingers

Ka’b bin Malik (radi Allahu anhu) reported: “I saw the Messenger of Allah (sal Allahu alaihi wa sallam) licking his three fingers after eating.” [Sahih Muslim, #5296]

Thus, the best way of eating is that shown by the Messenger of Allah (sal Allahu alaihi wa sallam) which was eating with his three fingers.

11. To recite the various Masnoon du’aas after meals. including:


اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ وَأَطْعِمْنَا خَيْرَاً مِنْهُ
"O Allah, You grant us blessings in it and grant us better than it".

(Tirmidhi)

OR

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ
"All Praise belongs to Allah who granted this meal, (which I received) without my power or effort".

All previous sins are forgiven if this dua is recited after meals.

(Mishkat, Kitabul-li-baas)


JAZAK ALLAH KHAIR FOR READING THIS



Note:
Please share it because spreading a Good or Islamic Knowledge is Sadqa (charity) Any good deed that a Muslim starts during his life time, and that is of renewed benefit and ongoing use for the Muslims, will continue to benefit him and augment his record of good deeds, even after his departure - as long as its benefits continue to reach others.

Allah, the Most High, says:

" Surely We will give new life to the dead, and We are recording whatever (deeds) they send before them and whatever effects they leave behind. Every thing is fully computed by Us in a manifest book of record." [ Al Quran 36:12]

بیشک ہم مردوں کو زندہ کریں گے (١) اور ہم لکھتے جاتے ہیں اور وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہرچیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے (٢)

Abu Hurayrah, rahimahullah, reported that Allah's Messenger, Sallallahu 'alayhi wa sallam, said, "When a human being dies, all of his deeds are terminated except for three types: an ongoing sadaqah, a knowledge (of Islam) from which others benefit, and a righteous child who makes du'a for him." [Muslim and others]

" اور حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس آدمی نے (کسی کو) ہدایت کی طرف بلایا اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس کو جو اس کی پیروی اختیار کرے، اور اس (پیروی کرنے والے) کے ثواب میں کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ اور جو (کسی کو) گمراہی کی طرف بلائے اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس کو جو اس کی اطاعت کریں اور ان کے گناہ میں کچھ بھی کم نہ ہوگا۔"

Enhanced by Zemanta

Wednesday, June 12, 2013

Hadith: Avoid the seven great destructive sins

The Prophet (sallallähu alaihi wasallam) said, "Avoid the seven great destructive sins.

1. To join others in worship along with Allah,
2. to practice sorcery,
3. to kill the life which Allah has forbidden except for a just cause, (according to Islamic law),
...
4. to eat up Riba (usury),
5. to eat up an orphan's wealth,
6. to give back to the enemy and fleeing from the battlefield at the time of fighting,
7. to accuse, chaste women, who never even think of anything touching chastity and are good believers.

[Bukhari Book:51 No:28]
Enhanced by Zemanta

Hadith: Great destroying sins".



Hazrat Anas (May Allah be pleased with him) said: You indulge in (bad) actions which are more insignificant to you than a hair while we considered them at the time of Messenger of Allah [SAWW](PBUH) to be great destroying sins".

[Al-Bukhari 08, Chapter 76, Hadith # 499].

Lesson : as mentioned above in Surah Al-Muminun Ayat 75." And though Allah had mercy on them and removed the distress which is on them, still they would obstinately persist in their transgression." The less fear of Allah, one has the more disobedient he becomes to Him. As the fear of Allah decreases, one becomes more bold in committing sins. As the Companions of the Prophet [SAWW](PBUH) were intensely fearful of Allah, they were afraid of committing even very minor sins.
Enhanced by Zemanta

Tuesday, June 11, 2013

Hadith: قرآن مجید کے فضائل

  •  
    مختصر صحیح مسلم
    قرآن مجید کے فضائل
    باب : ان کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا۔
    2104 : سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور اس کا مزا بھی اچھا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس میں بو نہیں مگر مزا میٹھا ہے اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال پھول کے مانند ہے کہ اس کی بو اچھی ہے لیکن اس کا مزا کڑوا ہے۔ اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن ( کوڑ تنبہ ) کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا بھی کڑوا ہے۔
Enhanced by Zemanta

Monday, June 10, 2013

Hadith: Riyakari

 
اپنے ایمان کی آبیاری کریں!!1

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت کے دن پہلا شخص جس کا فیصلہ کیا جاۓ گا وہ ایک شہید ہوگا۔ اسے لایا جاۓ گا اور اللہ سبحانہ وتعالی اسے اپنی نعمتیں گنواۓ گا اور وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ پھر اس سے پوچھا جاۓ گا: تم نے ان کے بدلے میں کیا نیک عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں تیری خاطر لڑا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اللہ فرماۓ گا: تم نے جھوٹ بولا۔ تو اس لیۓ لڑا تاکہ لوگ کہیں یہ بہادر شخص ہے۔ سو تمہیں بہادر کہا جا چکا۔ پھر اللہ تعالی حکم دے گا کہ اسے اس کے چہرے کے بل گھسیٹو اور (جہنم کی) آگ میں پھینک دو۔ پھر وہ شخص ہوگا جس نے علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن کی تلاوت کی۔ پس اسے لایا جاۓ گا اور اللہ اسے اپنی نعمتیں گنواۓ گا اور وہ اللہ ی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ اللہ پوچھے گا تم نے ان کے بدلے کیا عمل کیا؟ وہ شخص کہے گا: میں نے علم حاصل کیا اور اس کی تعلیم دی اور قرآن کی تلاوت کی اللہ فرماۓ گا تم نے جھوٹ بولا۔ بلکہ تم نے علم اس لیۓ حاصل کیا تاکہ تمہیں قاری کہا جاۓ پس ایسا کہا جاچکا پھر اللہ حکم دے گا اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم کی آگ میں پھینک دو۔ پھر وہ شخص ہوگا جسے اللہ تعالی نے وسعت دی اور ہر طرح کا مال عطا کیا پس اسے پیش کیا جاۓ گا۔ اللہ سبحانہ وتعالی اسے اپنی نعمتیں گنواۓ گا اور وہ ان نعتوں کا اقرار کرے گا۔ اللہ فرماۓ گا تم نے ان نعمتوں کے بدلے کیا عمل کیا۔ وہ شخص کہے گا: میں نے ہر اس راہ میں مال خرچ کیا کہ جس میں مال خرچ کرنا تجھے پسند ہے۔ اللہ فرماۓ گا تم نے جھوٹ بولا۔ بلکہ تم نے مال اس لیۓ خرچ کیا تاکہ لوگ کہیں کہ یہ شخص سخی ہے اور یہ کہا جا چکا۔ پھر اللہ حکم دے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دو"

[مسلم، نسائ]
Hadith: Riyakari
Enhanced by Zemanta

Monday, June 3, 2013

Al Quran: Life of this World

"وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گۓ اور کھیتیاں اور بہترین مکانات اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کر رھے تھے اسی طرح رہ گیا اور ھم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا سو نہ ان پر آسمان و زمین روۓ اور نہ انہیں مہلت دی گئ (سورہ دخان)
۰
جن لوگوں کو ھمارے پاس آنے کی امید نہیں ھے اور وہ دنیاوی زندگی پر راضی ھو گۓ اور اس سے انہیں اطمینان حاصل ھو گیا اور جو لوگ ہماری تنبیہوں سے غافل ہو گۓ ھیں ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ان کے اعمال کی وجہ سے جہنم ہے (یونس).

ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم کو پوری پاداش تمہاری قیامت ھی کے روز ملے گی ، تو جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا سو پورا کامیاب وہ ھوا اور دنیوی زندگی تو کچھ بھی نہیں صرف دھوکے کا سودا ھے (سورہ ال عمران )

کاش اس وقت آپ دیکھیں جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں ، اور فرشتے اپنے ہاتھ ان کے طرف بڑھا رہے ہوں کہ اپنی جانیں جلد نکالو . آج تمہیں ڈلت کا عذاب ملے گا اس لیے کہ تم اللہ کے زمے ناحق باتیں جوڑا کرتے تھے اور تم اللہ کی نشانیوں کے مقابلہ میں تکبر کیا کرتے تھے (الانعام)
Enhanced by Zemanta

Sunday, June 2, 2013

AlQuran: whoever earns evil and his sin has encompassed him



بَلٰى ۚ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيْۗــــَٔــتُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۖ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۝ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ
Yes, whoever earns evil and his sin has encompassed him - those are the companions of the Fire; they will abide therein eternally. And those who believe (in the Oneness of Allah) and do righteous good deeds, they are dwellers of Paradise, they will dwell therein forever.
یقینا جس نے بُرے کام کیے اور اس کے گناہوں نے اسے گھیر لیاتو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے، وہی جنتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
[Al-Quran 2:81-82]
الْجَنَّةِ ۖ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۝
Enhanced by Zemanta

AlQuran: Muslim womens keep their eyes down

بسم الله الرحمن الرحیم

اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچّے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چُھپا ہوا سنگار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ

پارہ 18 سورہ 24 سورہ النور آیت 31
...

تفسیر ابن کثیر:- شان نزول:- مروی ہے کہ اسما بنت مرثد رضی اللہ عنہ کا مکان بنو حارثہ کے محلے میں تھا ان کے پاس عورتیں آتی تھیں اور دستور کے مطابق اپنے پیروں کے ذیور سینے اور بال کھولے ہوئے آیا کرتی تھیں حضرت اسماء نے کہا یہ کیسی بری بات ہے اس پر یہ آئیتیں اتری کہ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہیے سوا اپنے خاوند کے کسی کو بہ نظر شہوت نہ دیکھنا چاہیے

تفسیر کنز الایمان:- حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ابو عبیدہ بن جراح کو لکھا تھا کہ کُفّار اہلِ کتاب کی عورتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمّام میں داخل ہونے سے منع کریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمہ عورت کو کافِرہ عورت کے سامنے اپنا بدن کھولنا جائز نہیں ۔ مسئلہ : عورت اپنے غلام سے بھی مِثل اجنبی کے پردہ کرے ۔ (مدارک و غیرہ)

حُرّہ کا تمام بدن عورت ہے ، شوہر اور مَحرم کے سوا اور کسی کے لئے اس کے کسی حصّہ کا دیکھنا بے ضرورت جائز نہیں اور معالجہ وغیرہ کی ضرورت سے قدرِ ضرورت جائز ہے ۔ (تفسیرِ احمدی)
Enhanced by Zemanta

Beautiful View of Hira Cave Makkah

Beautiful View of Hira Cave Makkah
Enhanced by Zemanta

Beautiful Mosqes Pictures in Madinah

 Quba Mosque
 Qiblatain Mosque
 Khandaq Mosque
 Prophet Mosque
 Prophet Mosque
Prophet Mosque

Beautiful Mosques Pictures in Madinah
Enhanced by Zemanta

AlQuran: Allah knows every thing

AlQuran: Allah knows every thing
Enhanced by Zemanta

Backbiting and Budgumani


Hadith: Between the two Blowing of the Trumpet there will be an interval of forty

Hazrat Abu Hurairah (May Allah be pleased with him) reported: The Messenger of Allah [SAWW](PBUH) said,
 
"Between the two Blowing of the Trumpet there will be an interval of forty.'' The people said, "O Abu Hurairah! Do you mean forty days?'' He said, "I cannot say anything.'' They said, "Do you mean forty years?'' He said, "I cannot say anything.'' They said, "Do you mean forty months?'' He said, "I cannot say anything. The Prophet added: `Everything of the human body will perish except the last coccyx bone (end part of the spinal cord), and from that bone Allah will reconstruct the whole body. Then Allah will send down water from the sky and people will grow like green vegetables'.''
[Al-Bukhari Book 06, Chapter 60, Hadith # 457]
Lesson : as mentioned above in Surah Al-Hajj Ayat 07."there is no doubt about it, and certainly, Allah will resurrect those who are in the graves"
1. When Israfil blows the Trumpet th...e first time, by Allah's Leave, all those who are in the heavens and on earth will swoon away, except him whom Allah will. This will be the first Blowing. Then, it will be blown a second time, they will become alive and will emerge from their graves. These Blowings are known as the `Blowings of Fainting and Rising'. As regard the interval between these two Blowings, the narrator of the narration, Abu Hurairah (May Allah be pleased with him), could not say anything when he was asked about it; as he himself did not know it. But in other narrations the interval has been mentioned as forty years. 
2. The earth eats away the whole body of humans except the bodies of the Prophets. However, only the end part of the spinal cord remains intact. How it remains intact is known to Allah, but from it mankind will be created again. 3. Bodies will rise from the earth as vegetation springs out from the earth after the rainfall.
 
Enhanced by Zemanta