Showing posts with label As-Salamu Alaykum. Show all posts
Showing posts with label As-Salamu Alaykum. Show all posts

Monday, April 29, 2013

Hadith: جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہو... گا۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:
جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہو...
گا۔ تو ایک شخص نے
عرض کیا کہ آدمی اس کو پسند کرتا ہے کہ اسکا کپڑا اچھا ہو، اس کاجوتا اچھا ہو(تو کیا
یہ بھی تکبر ہے) تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ\
جمال والا ہے اور وہ جمال والے کو پسند فرماتا ہے۔ (یہ تکبر نہیں ہے) بلکہ تکبر یہ ہے
کہ آدمی حق سے سرکشی کرے اور دوسرے لوگوں کو ذلیل سمجھے۔
(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم الکبر وبیانہ، الحدیث:۹۱،ص۶۰)
 
Enhanced by Zemanta

Saturday, April 27, 2013

Hadith: پاکیزہ کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کا بڑھنا


 
  پاکیزہ کمائی سے صدقہ کی قبولیت اور اس کا بڑھنا۔
539 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنی پاکیزہ ( حلال ) کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر اس کی اس طرح تربیت کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا جوان اونٹنی کو پالتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ( ایک کھجور کا صدقہ ) پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ جاتا ہے

540 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! اللہ تعالیٰ پاک ہے ( یعنی صفات حدوث اور صفات نقص و زوال سے ) اور نہیں قبول کرتا مگر پاک مال ( یعنی حلال کو ) اور اللہ پاک نے مومنوں کو وہی حکم کیا جو مرسلین کو حکم کیا اور فرمایا کہ (( اے رسولوں کی جماعت ! کھاؤ پاکیزہ چیزیں اور نیک عمل کرو میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں )) اور فرمایا کہ (( اے ایمان والو کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں دیں )) پھر ذکر کیا ایسے مرد کا جو کہ لمبے لمبے سفر کرتا ہے، پراگندہ حال ہے، گرد و غبار میں بھرا ہے اور پھر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے رب، اے رب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے اور اس کی غذا حرام ہے پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو؟

Saturday, April 20, 2013

Hadith: اللہ کی سو ( ۱۰۰ ) رحمتیں ہیں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

"اللہ کی سو ( ۱۰۰ ) رحمتیں ہیں ،
ان میں سے ایک رحمت انسانوں ، جنات ، جانوروں ، چرند و پرند ، بحری مخلوق اور حشرات ا...
لارض کیلئے خاص کی ہے ۔
اس ایک رحمت کا نتیجہ ہے کہ یہ ساری مخلوقات ایک دوسرے پر شفقت کرتی ہیں ،
بقیہ ننانوے رحمتیں اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کیلئے مخصوص کر رکھی ہیں ، جن کا اظہار ( اللہ پاک ) قیامت کے دن کرے گا ۔"
 

Enhanced by Zemanta

Tuesday, April 16, 2013

Reasons of Earthquakeزلزلے کیوں آتے ہیں؟



إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا ﴿099:001﴾ - جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی

...


وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا ﴿099:002﴾ اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی

وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا ﴿099:003﴾ انسان کہنے لگے گا اسے کیا ہوگیا ہے۔

يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ﴿099:004﴾ اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کر دے گی

بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا ﴿099:005﴾ اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔

***************
زلزلے کیوں آتے ہیں؟

***************************

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو بیشمار نشانیاں بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں زلزلوں کی کثرت ہوگی.کسی زمانے میں جب کہیں سے یہ اطلاعّ آتی تھی کہ فلاں جگہ زلزلہ آیا ہے اور اتنے لوگ اسکے نتیجے میں لقمہ اجل بن گئے ہیں تو دیندار اور خوف خدا رکھنے والے لوگ توبہ استغفار کرنے لگتے تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی رو سے یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے. مگر آجکل روزانہ ہی کہیں نہ کہیں زلزلے نمودار ہو رہے ہیں اور انکے نتیجے میں جانی اور مالی خسائروقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں. مگر لوگوں کے دلوں میں اس بات کا خوف جانگزین نہیں ہوتا کہ زلزلوں کا اس شدت کے ساتھ آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بلکہ دلوں پر خوف کی جگہ ایک بے حسی کی کیفیت طاری ہو چکی ہے اور نصیحت حاصل کرنے کی بجائے تجاہل سے کام لیا جانے لگا ہے. قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورۃالزلزال میں وقوع قیامت کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ:جب زمیں اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائیگی: (سورۃ الزلزال۔ آیۃ ۱) مفسرین اس آیت سے یہ معنی لیتے ہیں کہ اس وقت زمین کا کوئی مخصوص حصہ نہیں بلکہ پورے کا پورا کرہ ارض ہلا دیا جائیگا جسکے نتیجے میں دنیا کا وجود ختم ہو جائیگا. مگر اس عظیم زلزلے کے واقع ہو نے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زمین کے مختلف حصوں پر زلزلوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائیگا
 



 

 

Enhanced by Zemanta

Monday, April 15, 2013

Hezrat Abdullah Bin Omar Bin AlAaas (R)

      • حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ قریش کے ایک معزز خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد عمرو بن العاص تو غزوہ خندق کے بعد مسلمان ہوئے لیکن یہ خوش نصیب صحابی اوائل عمری ہی میں حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور آنحضور کا بھرپور ساتھ دیا۔ بہت نیک نہاد اور متقی صحابی تھے۔ جہاد میں برابر شرکت کرتے اور حصولِ علم کے لیے بھی بڑا وقت صَرف کرتے تھے۔ اس کے ساتھ انھیں ریاضت و عبادت کا ایسا شغف تھا کہ وہ رہبانیت کی حدوں کو چھونے لگے۔ نبی اکرم کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں بلا بھیجا۔ اس واقعہ کے راوی خود حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ ہیں۔ آپ نے ان سے پوچھا: ”کیایہ بات درست ہے کہ تم دن بھر روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نماز میں مشغول رہتے ہو“؟ انھوں نے عرض کیا: ”جی ہاں یا رسول اللہ“۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو۔ مسلسل روزے نہ رکھا کرو، کبھی روزہ رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ اسی طرح رات بھر قیام نہ کیا کرو، رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارو اور کچھ حصہ آرام کرو۔ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ تمھاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملنے کے لیے آن...ے والے دوست احباب کا بھی تم پر حق ہے۔ تمھارے لیے یہ عمل کافی ہے کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ اس سے تم مستقل روزہ دار شمار ہوگے کیونکہ تمھیں ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا“۔ حضرت عبد اللہؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضور سے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! میں اپنے اندر اس سے زیادہ عمل کی قوت پاتا ہوں“۔ آپ نے فرمایا: ”تو پھر اللہ کے نبی داﺅدؑ کی طرح روزہ رکھا کرو اور اس سے آگے ہر گز نہ بڑھو“۔ داﺅدؑ ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن روزہ نہ رکھتے۔
      • حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کے حالاتِ زندگی میں ان کی تلاوتِ قرآن کے متعلق بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ بیش تر وقت قرآن پڑھنے میں صَرف کیا کرتے تھے۔ آنحضور نے فرمایا: ”ایک ماہ میں ایک بار قرآن مجید ختم کیا کرو“۔ انھوں نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! مجھ میں اس سے کہیں زیادہ طاقت ہے“۔ آنحضور نے فرمایا: ”پھر تین دن میں ختم کرلیا کرو“۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کا یہی عمل رہا لیکن زندگی کے آخری سالوں میں جب بڑھا پے اور ضعف نے آلیا تو اپنے اہل و عیال اور شاگردوں سے فرمایا کرتے کہ کاش میں نے رسول اللہ کی دی ہوئی رخصت کو مان لیا ہوتا۔
      • اعمال تھوڑے بھی ہوں مگر ان میں دوام ہو، اخلاصِ نیت ہو اور اللہ کی رضا مقصود ہو تو ان میں بے پناہ برکت اور افزایش ہوتی ہے۔ آنحضور خود فرمایا کرتے تھے کہ میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں مگر میں روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔ رات کو قیام کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ میں شادی کرتا ہوں (اور اہل و عیال کے حقوق ادا کرتا ہوں)۔ آنحضور ہی امت کے لیے اسوہ ¿ حسنہ ہیں۔ افراط و تفریط اور غلو کسی بھی معاملے میں درست نہیں ہوتا۔ ہم امتِ وسط ہیں اور اعتدال و توازن ہماری امتیازی شان ہے۔ اعتدال میں حسن ہوتا ہے اور توازن مشکلات و مسائل سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ آج امت کو یہ بھولا ہوا سبق دوبارہ کرانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ 
      • Hezrat Abdullah Bin Omar Bin AlAaas (R)
Enhanced by Zemanta

Sunday, April 14, 2013

Hadith.اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو

 
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیتا ہے ( وہ ) صبح کو وہ ( گھونسلوں سے ) بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ۔


جامع ترمذی

 
Enhanced by Zemanta

AlQuran اللہ فاسق لوگوں کی رہنم...ائی نہیں کیا کرتا


  1. اے نبی ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں ، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ، 22 اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنم...ائی نہیں کیا کرتا۔ ؏ ۳


    [٢٢] دنیوی مرغوبات میں پھنس کر جہاد چھوڑنے کی سزا:۔ اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے اور بعض مسلمانوں کے باپ یا بیٹے یا بیویاں کافر تھیں جنہیں چھوڑ کر ہجرت کرنا مشکل سی بات تھی۔ اسی طرح انسان کو اپنے کمائے ہوئے مال و دولت، اپنے کاروبار سے اور جائیداد سے بھی بہت محبت ہوتی ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی کے نتیجہ میں اسے حاصل ہوتی ہے لہذا انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے کہ آیا وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر ہجرت اور جہاد کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت اس معیار پر بھی پوری اتری۔ تھوڑے ہی مسلمان ایسے تھے جو انہی فطری کمزوریوں کی وجہ سے مکہ میں یا اطراف و جوانب میں رہ گئے تھے اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ان کمزوریوں کو دور نہ کیا اور اپنی جانوں اور اموال سے جہاد کرنے میں کوتاہی کی اور رشتہ داروں کی محبت، تن آسانی اور دنیا طلبی کی راہ اختیار کی اور خواہشات نفس میں پھنس کر اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کی تو تمہیں حقیقی کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ اور حدیث میں ہے کہ جب تم جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے تم کبھی نکل نہ سکو گے۔ (ابن ماجہ۔ کتاب الجہاد، باب التغلیظ فی الجھاد ) 
     

Enhanced by Zemanta

Saturday, April 13, 2013

فتح مکہ


 ...................
جب صلح حدیبیہ طے پا گئی تو بنو خزاعہ رسول اللہﷺکے حلیف بن گئے اور بنو بکر قریش کے ساتھ مل گئے۔ بنو بکر کے ایک آدمی نے بنو خزانہ کے ایک آدمی کو قتل کردیا۔اس کے نتیجے میں دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ بھڑک اٹھی۔ قریش نے اسلحے کے ساتھ بنو بکر کی مدد کی بلکہ رات کے اندھیرے میں قریش کے کچھ لوگ بنوبکر کے ساتھ مل کر لڑائی میں شریک بھی ہوئے۔ اس طرح انھوں نے صلح حدیبیہ کے مع...
اہدے کی خلاف ورزی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس مدد کا مطالبہ لے کر آیا۔ آپ نے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا اور اعلان فرما دیا کہ ہم مکہ جائیں گے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! قریش کے جاسوسوں کو قابو کر لے تاکہ ہم مکہ والوں کو اچانک جالیں۔‘‘
رسول اللہﷺ 10رمضان المبارک کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کو رسول اللہﷺ اور لشکر کی روانگی کا کچھ پتہ نہیں تھا کیونکہ آپ ﷺ قریش سے خبروں کی مکمل ناکہ بندی کرچکے تھے۔ اتفاقاً ایک رات ابو سفیان، حکیم بن حزام اور بُدَیل بن ورقاء کسی خبر کی تلاش میں مکہ سے باہر آئے۔ ادھرنبی کریمﷺکے چچا عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے سفید خچر پر سوار پھر رہے تھے کہ کوئی شخص ملے تو اسے مکہ والوں کے پاس بھیجیں کہ رسول اللہﷺتشریف لا چکے ہیں، لہٰذا اہل مکہ آکر امان حاصل کرلیں۔
اتفاقاً سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ابو سفیان مل گئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں قائل کیا کہ میرے ساتھ سوار ہوکر رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں اور مکہ والوں کے لیے امان حاصل کرلیں۔ وہ ان کے ساتھ گئے تو آپﷺنے اسلام کی پیشکش کی۔ ابو سفیان مسلمان ہو گئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’اللہ کے رسول! ابوسفیان سردار شخص ہے۔ فخر کا خواہش مند ہے، لہٰذا اسے کچھ امتیاز عطا فرمائیں۔‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا:
’نَعَمْ! مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِيْ سُفْیَانَ فَھُوَاٰمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہٗ فَھُوَ اٰمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَھُوَا اٰمِنٌ‘
’’ٹھیک ہے! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امان حاصل ہوگی۔ جو اپنا دروازہ بند کرکے گھر بیٹھ جائے، اسے بھی امان حاصل ہو گی۔ جو بیت اللہ میں چلا جائے، اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔‘‘( سیرۃ ابن ہشام: 46/4)
جب نبی اکرمﷺذو طویٰ نامی وادی میں داخل ہوئے تو آپ نے فتح مندی کے احسان کا شکر اداکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر جھکایا ہوا تھا حتیٰ کہ آپ کی داڑھی مبارک کے بال پالان کی لکڑی کو لگ رہے تھے۔

لشکر کا مکہ مکرمہ میں داخلہ
لشکر اسلام کا ہر دستہ رسول اللہﷺکی ہدایات کے مطابق پیش قدمی کر رہا تھا۔ کوئی مزاحمت نہیں ہورہی تھی۔ صرف مکہ مکرمہ کی نشیبی جانب بنوبکر اور حبشیوں کے کچھ لوگوں نے خالدرضی اللہ عنہ کے دستے کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ جلد ہی شکست کھا گئے۔ صفوان بن اُمیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو نے بھی خندمہ کے علاقے میں کچھ لوگ لڑائی کے لیے جمع کر رکھے تھے۔ جب خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اپنے دستے سمیت پہنچے تو انھوں نے بھی تھوڑی بہت مزاحمت کی۔ ان میں سے تقریباً بارہ تیرہ آدمی مارے گئے، باقی بھاگ کھڑے ہوئے۔
رسول اللہﷺ نے دستوں کے امیر مقرر فرماتے وقت انھیں تاکید فرمائی تھی کہ مکہ مکرمہ میں داخلے کے وقت کسی کو قتل نہ کریں الا یہ کہ کوئی ان سے لڑائی لڑے، البتہ آپ نے چند اشخاص کے نام لے کر ان کے قتل کا حکم دیا تھا، خواہ وہ بیت اللہ کے پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے کیوں نہ مل جائیں۔ ان کے نام یہ تھے:
عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سَرْح، عبداللّٰہ بن خطلّ اوراس کی دو گانے والی لونڈیاں، حُوَیرِث بن نُقَیذ۔ مِقْیَس بن صُبَابَہ۔ عِکرِمَہ بن اَبی جَھل اور بَنُو عبدالمُطَّلِب کی ایک لونڈی سَارَّہ۔
مگر ان میں سے صرف عبداللّٰہ بن خطلّ، مِقیَس بن صُبَابَہ اور اِبن خطلّ کی ایک لونڈی قتل کردیے گئے باقی نے معافی مانگ لی اور آپ ﷺ نے انھیں معاف فرما دیا۔
رسول اللہﷺجمعۃ المبارک بتاریخ 19رمضان المبارک 8ھ کو اَذَاخِر کے مقام سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ یہ ’’تاریخ القدس‘‘ میں عَلِیمی کا قول ہے، البتہ فاسی کی ’’تُحفَۃُ الکِرَام بِاَخبَارِ بَلَدِ اللّٰہِ الحَرَام‘‘ میںواقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ جمعۃ المبارک کو مکہ مکرمہ میں تشریف فرما ہوئے جبکہ رمضان المبارک کے دس دن باقی تھے۔‘‘
نبیﷺکے لیے مقام اَبطَح میںخصوصی خیمہ لگا دیا گیا تھا۔ آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار داخل ہوئے۔ آپ ﷺ کے پیچھے سواری پر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سوار تھے اور آپ کے ایک طرف ابوبکرتھے اور دوسری طرف اُسید بن حُضیر۔ آپ اپنے خیمے میں فروکش ہوئے۔ ابن عمرفرماتے ہیں:
’’رسول اللہﷺمکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مشرکین کی عورتیں گھوڑوں کے چہروں سے اپنے دوپٹوں کے ساتھ گردو غبار جھاڑ رہی تھیں۔ ابوبکر مسکرائے۔ آپe نے فرمایا: ’’ابوبکر! حسان نے کیسے کہا تھا؟ ابوبکرنے حسان بن ثابت کے یہ شعر پڑھے ؎
عَدِمْتُ بُنَیَّتِیْ إِنْ لَّمْ تَرَوْھَا
تُثِیْرُ النَّقْعَ مِنْ کَنَفَیْ کَدَائِ
یُنَازِعْنَ الْأَعِنَّۃَ مُسْرَجَاتٍ
یُلَطِّمُھُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَائُ
’’میری بیٹی مر جائے اگر تم ہمارے گھوڑوں کو کَدَاء کے دونوں کناروں پر گردوغبار اڑاتے نہ دیکھو۔ وہ اپنے سواروں سے باگیں چھڑا چھڑا کر بھاگیں گے۔ ان پر کاٹھیاں پڑی ہوں گی اور عورتیں اپنے دوپٹوں کے ساتھ ان کے چہروں سے گردو غبار جھاڑیں گی۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑوں کو وہیں سے داخل کرو جہاں سے حسان رضی اللہ عنہ نے داخل ہونے کا ذکر کیا ہے۔(یعنی کَدَاء سے)۔
جب لوگوں میں اطمینان ہوا تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر بیت اللہ تشریف لائے اور سواری ہی پر سات چکر لگائے۔ جب بھی حجراسود کے پاس سے گزرتے، اپنی چھڑی کے ساتھ اسے چھو لیتے۔ اس وقت حرمِ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے جنھیں سیسے کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔ آپ انھیں اپنی چھڑی سے مارتے اور فرماتے تھے:
وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا
’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔‘‘ (بنی اسرآئیل 81:17۔)
بت چہرے کے بل گرتے جارہے تھے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اس وقت بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساتھ بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ رسول اللہﷺکے حکم سے ان سب کو منہ کے بل گرادیا گیا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ جناب رسول اللہﷺمکہ میں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے بتوں کی موجودگی میں کعبے میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ آپ کے حکم سے ان کو نکال دیا گیا۔ جب سیدنا ابراہیم و اسماعیل کے بت نکالے گئے تو ان کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو ہلاک کرے ، اللہکی قسم! انھیں علم ہے کہ ان دونوں شخصیات نے کبھی تیروں کے ساتھ قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔‘‘
پھرآپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اورکونوں میں کھڑے ہوکر تکبیریں پڑھتے رہے۔ لیکن آپ نے اس میں نماز ادا نہیں فرمائی۔جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ نے اس میں نماز ادا فرمائی تھی جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرسے مروی حدیث میں ہے۔ صحیح البخاري: 1599۔
جب نبیﷺنے کعبے میں نماز ادا فرمائی، بیت اللہ کے اندر چکر لگالیا، اس کے کونوں میں تکبیرات پڑھ لیں اور نعرۂ توحید بلند فرمادیا تو بیت اللہ کا دروازہ کھلنے پر آپ نے دیکھا کہ مسجد قریش سے بھر چکی تھی جو صفوں میں بیٹھے اس انتظار میں تھے کہ آپ ان سے کیا سلوک فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بیت اللہ کے دروازے کے دونوں بازئووں کو پکڑ کر ارشاد فرمایا:
’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلے نے سب لشکروں کو شکست دی۔ خبردار! ہر قسم کا فخر، مالی اور نسبی امتیاز جن کے دعوے کیے جاتے ہیں، آج میرے پائوں تلے ہیں سوائے بیت اللہ کی خدمت اورحاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کے۔ خبردار! اگر کسی کو کوڑے یا لاٹھی کے ساتھ غلطی سے ماردیا جائے تو قاتل پر سخت دیت لاگو ہوگی یعنی سو اونٹ جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ بھی ہوں گی۔‘‘
اے قریش! اللہ تعالیٰ نے تمھارا جاہلی تکبر اور آبائی فخر ختم کردیا۔ سب لوگ آدمعلیہ السلام کیاولاد ہیں اور سیدنا آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔‘‘(الحجرات 13:49۔)
پھر فرمایا: ’’اے قریش! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تم سے کیسا سلوک کروں گا؟‘‘
وہ کہنے لگے: ’’یقینا آپ اچھا سلوک کریں گے کیونکہ آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’میں تم سے وہی الفاظ کہتا ہوں جو سیدنا یوسفuنے اپنے بھائیوں سے فرمائے تھے:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ … اِذْھَبُوْا فَأَنْتُم الطُّلَقَائُ
’’آج تمھیں کوئی ملامت نہ ہو گی۔‘‘…’’جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘
پھر رسول اللہﷺ نے کعبے کی چابی عثمان بن طلحہ کو واپس کردی جو پہلے آپ نے ان سے منگوا لی تھی۔

فتح مکہ کے نتائج
فتح مکہ کے متعدد نتائج تھے:
1 مکہ مکرمہ اب کفار کی دسترس سے نکل کر مسلمانوں کی عملداری میں آگیا تھا، چنانچہ اس طرح حنین اور طائف میں شرک کے گڑھ کا خاتمہ کرنے اور پھر اس کے بعد سارے جہان سے اسے ختم کرنے کا موقع میسر آگیا۔
2 جزیرۃ العرب میں مسلمان سب سے بڑی قوت بن کر ابھرے۔ اور فتح مکہ کے ساتھ ہی رسول اللہﷺکی امید بَر آئی کہ قریش کو اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ مسلمان جزیرۃ العرب میں ایک ایسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے جس کے سامنے کوئی قبائلی قوت ٹھہر نہ سکتی تھی، جبکہ اس میں اتنی قوت تھی کہ سارے عرب کو اسلام کے پرچم تلے جمع کر لے اور آس پاس کے علاقوں تک رسائی حاصل کرے۔ تاکہ ظلم کی حکومتوں کو مٹایا جاسکے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو آزادی سے ہمکنار کیا جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہو کر اس اکیلے معبود کی عبادت کریں۔
3 اس فتح کے دینی، سیاسی اور معاشرتی اثرات تھے۔ جو شخص بھی اس مبارک فتح کو گہری نظر سے دیکھے گا اسے وہ اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے۔ معاشرتی اثرات تو اس طرح سامنے آئے کہ رسول گرامیﷺنے لوگوں سے انتہائی نرمی کا سلوک کیا اور ان کی راہنمائی کی تاکہ ان کی خود اعتمادی بحال ہو اور جس نئی صورتِ حال نے ان کے شہر پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اس پر بھی انھیں یقین آجائے۔
رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ چھوڑتے وقت حضرت معاذ بن جبل کو یہیں رکھا تھا تا کہ وہ نماز پڑھائیں اور دین کے مسائل بتائیں۔
رہے سیاسی اقدامات تو رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اَسِید کو امیر مقرر فرمایا تاکہ وہ لوگوں میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں، کمزور کو اس کا حق دلائیں اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد و حمایت کریں۔¢
فتح مکہ کے دینی اثرات یوں مرتب ہوئے کہ فتح مکہ اور اس شہر کے اسلامی قلمرو میںشامل ہونے سے تمام عرب کو یقین آ گیا کہ اسلام ہی (انسانوں کے لیے) اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے، چنانچہ اب وہ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
4 مومنوں کو باوقار جگہ دینے کے متعلق اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا۔ تمام مراحل طے کر لیے گئے۔ اور اس کے لیے اہل ایمان نے گراں قدر قربانیاں دے کر تمام شرائط پوری کر دی تھیں، مثلاً: آزمائش کا سامنا کرنا، مزاحمت کا طریقہ اختیار کرنا، رفتہ رفتہ استحکام اور قوت حاصل کرنا، دلوں میں انقلاب برپا کرنا اور تمام اسباب اختیار کر لینا
 

 
Enhanced by Zemanta

Tuesday, April 9, 2013

Battle of Uhad

Battle of Uhad 
غزوۂ احد میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ اللہ شہید کر دیئے گئے۔ اس خبر کا سننا تھا کہ مدینے میں ہر طرف کہرام مچ گیا۔ اہلِ مدینہ شہر سے باہر نکل آئے۔ ان میں قبیلہ انصار کی ایک خاتون حضرت ہند بنت حزام رضی اﷲ عنہا بھی تھی جس کا باپ، بھائی اور خاوند حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوۂ احد میں شریک ہوئے تھے، اور تمام کے تمام اس غزوہ میں شہید ہوگئے تھے۔
جب اس خاتون سے کوئی صحابی ملتا تو وہ اطلاع دیتا کہ تیرا باپ وہاں شہید ہوگیا اور کوئی اس کے خاوند کی شہادت کا تذکرہ کرتا تو کوئی بھائی کی شہادت کی خبر دیتا۔ وہ عظیم خاتون سن کر کہتی کہ یہ بات نہ کرو بلکہ یہ بتلاؤ :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کيسے ہيں؟‘‘
صحابہ رضی اللہ عنھم نے جواب ديا :
’’الحمد ﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح خیریت سے ہیں جس طرح تو پسند کرتی ہے‘‘۔
...
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیریت کی خبر سن کر وہ کہنے لگی :
’’مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کراؤ، حتی کہ میں خود اُنہیں دیکھ لوں۔‘‘
جب اس خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نظر دیکھا تو پکار اٹھی :
’’یا رسول اللہ! آپ کے ہوتے ہوئے ہر غم و پریشانی ہیچ ہے۔
 
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 250
طبري، تاريخ الامم و الملوک، 2 : 374
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 528، 3542
ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 547
قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 93
  
Enhanced by Zemanta