حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’مومن اپنے گناہوں کو…بلاریب و شک… ایسا محسوس کرتا ہے ‘ گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور اسے (ہردم) اس بات کا خوف ہے کہ کہیں پہاڑ اس پر ٹوٹ نہ پڑے اور حق فراموش و ناخدا ترس بندہ اپنے گناہوں کو بالکل ایسا محسوس کرتا ہے‘ گویا ایک مکھی تھی جو اس کی ناک پہ سے گزری تو اس نے اسے یوں کرکے ہٹادیا۔‘‘ اور ابوشہاب (راوی) نے ناک کے اوپر پانے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا۔
’’مومن اپنے گناہوں کو۔ بلا ریب و شک۔ ایسا محسوس کرتا ہے‘گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے‘ اور اسے (ہردم)اس بات کا خوف ہے کہ کہیں پہار اس پر ٹوٹ نہ پڑے…‘‘یعنی اللہ کی بندگی کا عزم راسخ رکھنے اور اس کی اطاعت کی راہ میں پہیم جدوجہد کرنے کے باوجود بندۂ مومن سے خواہشات نفس ‘ جذبات و ہیجانات اور تسویلات شیطانی کے زیر اثر وقتی طور پر جو کوتاہیوں اور نافرمانیاں ہوجاتی ہین‘ وہ انہیں درست و صواب نہیں سمجھتا‘ نہ تاویلات کے ذریعہ دوسروں کو اور خود اپنے آپ کو کسی فریب میں مبتلا کرنے کی کوشس کرتا ہے‘ اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ اسے اپنی کوتاہیاں محسوس نہ ہوتی ہوں‘ یا محسوس تو ہوتی ہوں مگر حقیر معلوم ہوتی ہوں۔ اس کے برعکس وہ اپنی ہر چھوٹی بڑی کوتاہی کو محسوس کرتا ہے اور شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ ہو اپنے معمولی گناہ کو بھی پہاڑ کی مانند خیال کرتا ہے اور اللہ کی گرفت اور دنیا و آخرت میں اپنا گناہ کی ہولناک پاداش کے خوف سے لرزنے لگتا ہے۔ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ ہر ایک ایسے خطرے میں پھنس گیا ہے جس سے بچ نکلنے کی اگر فورا کوشش نہ کی گئی تو وہ اسے ہلاکت سے دوچار کردے گا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور پہاڑ سخت زلزلے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے بس اُس پر گراہی چاہتا ہے‘ اور پہاڑ گرا اور وہ المناک موت و ہلاکت سے دوچار ہوا۔ یہ محسوس کرکے وہ کانپ اٹھتا ہے۔ اس پرخطر موقف سے بھاگ کھڑے ہونے کی جدوجہد کرتا ہے جس گندگی نے اس کے دامن کو الودہ کردیا تھا اُسے اپنے سے زائل کردینے کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے‘ اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کی زد میں محسوس کرکے اپنی کوتاہی پر نادم و مغموم ہوتا ہے اوراس عذاب سے بچنے کے لیے اُسی کا دامن پکڑتا ہے جس کے سوا انسان کے لیے کوئی پناہ نہیں اور جس کے سوا انسان کو اس کے گناہوں کی ہولناک پاداش سے کوئی بچانے والا نہیں۔ وہ اس کی نافرمانی سے تائب ہوتا ہے‘ الحاح و زاری کے ساتھ اپنے اُس مہربان آقا کے آگے سربجودہوتا ہے ‘اُس کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پھر تھام لیتا ہے اور اُس کی نافرمانی سے بچنے اور اس کی رضا پر چلنے کا اس سے پھر محکم عہد کرتا ہے… یہ ہے حقیقی ایمان کا نتیجہ او ریہ ہے حقیقی مون کی علامت ! آیئے اس آئینہ میں ہم سب اپنا اپنا چہرہ دیکھیں کہ ہم میں کس درجہ حقیقی ایمان ہے اور کہاں تک ہم میں یہ صفت موجود ہے اور کہاں تک موجود نہیں ہے!
’’اور حق فراموش و ناخدا ترس بندہ اپنے گناہوں کو بالکل ایسا محسوس کرتا ہے ‘ گویا ایک مکھی تھی جو اس کی ناک پر سے گزری تو اُس نے اُسے یوں کرکے ہٹادیا۔‘‘یعنی وہ اللہ کی نافرمانی کو بہت معمولی خیال کرتا ہے‘ وہ سمجھتا ہے کہ ان نافرمانیوں سے اُس پر کوئی خاص بات ہوئی ہی نہیں۔ جس طرح مکھیاں ادھر ادھر اڑا کرتی ہیں او رپھر انسان کے بدن پر بیٹھ جاتی ہیں اور اس سے انسان کسی ہلاکت سے دوچار نہیں ہوتا‘ اور نہ مکھی کو اڑانے کے لیے کسی فکر یا جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ خودبخود اڑ جاتی ہے یا ہاتھ کا معمولی سا اشارہ اسے اڑانے کے لیے کافی ہوتا ہے‘ بالخصوص جبکہ وہ ٹھیک سے بیٹھی بھی نہ ہو بلکہ اس نے انسان کی ناک کو بس ذرا سا چھولیا ہو۔ بالکل یہی حال ناخدا ترس بندے کی نظر میں اللہ کی نافرمانیوں کا ہوتا ہے‘ وہ نافرمانیوں پر نافرمانیاں کرتا ہے مگر یہ نافرمانیاں کبھی بھی اس کے لیے تشویش خاطر جکا موجب نہیں بنتیں وہ ہر نافرمانی کو حقیر خیال کرتا ہے اور رفتہ رفتہ گناہوں میں سر سے پیر تک ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ’’فاجر‘‘ ہوتا ہے‘ اسے نہ اس کا احساس ہوتا ہے کہ اللہ کے اس پر فی الواقع کتنے انعامات و احسانات ہیں اور ان کے سلسلے میں اس پر اللہ کے کتنے زیادہ حقوق عاید ہوتے ہیں اور انہ اس کے دل میں خوف خدا و آخرت زندہ وبیدار ہوتا ہے کہ اسے نافرمانی کی راہ پر آگے بڑھنے سے روک سکے اور شدید احتساب اور کثیر استغفار و توبہ کی طرف مائل کرسکے… دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی کو حقیر سمجھنے کا مرض ہم میں تو پرورش نہیں پر رہا ہے!
No comments:
Post a Comment